نارمل پاکستان

دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس وقت پاکستان کا اصل اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک ابنارمل (Abnormal)ملک بن گیا ہے اور حل کی چابی یہ ہے کہ اسے ایک نارمل (Normal)ملک بنا دیا جائے۔

ایک ایسا ملک جس میں ہر فرد اور ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے۔ بدقسمتی سے اس وقت یہاں کی سیاست ایسی نہیں جیسی جمہوری معاشروں کی ہوا کرتی ہے۔ یہاں کی پارلیمنٹ ایسی نہیں جیسا کہ جمہوری ملک کی ہوا کرتی ہے۔

یہاں کی عدالت ایسی نہیں رہی، جیسا کہ آئین اور قانون کے مطابق چلنے والے ملکوں کی ہوا کرتی ہے۔ یہاں کی صحافت ایسی نہیں رہی جیسا کہ ہونی چاہئے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم مہذب انسانوں کی طرح گفتگو اور مکالمہ بھی نہیں کر سکتے۔

اس جنت جیسے ملک کے ابنارمل ہونے کی ایک بڑی وجہ جمہوریت کا عدم تسلسل ہے لیکن اس کے لئے اگر طالع آزما ڈکٹیٹر ذمہ دار ہیں تو سیاستدان بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ سیاستدان کئی سال تک آئین بنا سکے اور نہ ہی باہمی تنازعات حل کر سکے۔

اس ملک کے ابنارمل بن جانے کی دوسری بڑی وجہ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور مذہب کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہے جس میں یقیناً بنیادی کردار کشمیر اور افغانستان کے تناظر میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ادا کیا لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اس میں سیاستدانوں اور میڈیا کا کوئی کردار نہیں۔

جب کشمیر آزاد کرانے کے لئے قبائلی پاکستانی جارہے تھے تو سیاسی قیادت نے فتویٰ دیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ بھی ایک سیاستدان کا تھا۔

تہتر کے آئین میں مذہبی شقیں بھی بھٹو کے زیرِ قیادت سیاسی عناصر نے شامل کرائیں۔ فوج نے اگر شہ دی تو جماعت اسلامی جیسے سیاسی عناصر بھی جہادی تنظیمیں بنانے میں لگ گئے۔

افغانستان کے محاذ کو چار چاند جنرل ضیاء الحق نے لگا دئیے لیکن آغاز تو ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ ملا لیکن جہاں مذہبی جماعتیں حصہ دار تھیں وہاں میاں نواز شریف اور خواجہ صفدر جیسے مسلم لیگی بھی اُن کے دست و بازو تھے جبکہ عدلیہ بھی ان کے ہر قدم کو سندجواز فراہم کرتی رہی۔

مذکورہ دو حوالوں سے پاکستان کو نارمل بنانے کے لئے ضروری تھا کہ اداروں کے تعلقات نارمل ہوں اور اس ملک کی سیاست، عدالت اور صحافت نارمل انداز میں چلے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں سے وہ یکسر ابنارمل ہو گئے ہیں۔ حد سے زیادہ ابنارمل ہونے کے اس عمل کا آغاز میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ہوا۔

جب انہوں نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے فوج باجوڑ سے لے کر کراچی تک حالتِ جنگ میں تھی۔ اس طویل جنگ کی وجہ سے پاکستانی فوج غازیوں کی فوج میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ لوگ جو میجر اور کرنل کی حیثیت سے اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھا چکے تھے، جرنیل بن گئے تھے۔

یوں فوج بحیثیت ادارہ پہلے کبھی اتنی جذباتی نہیں تھی جتنی کہ اب ہو چکی تھی۔ دوسری طرف بدقسمتی سے وزیراعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کے دور کے غصے سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے چنانچہ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کیا، جس کے جواب میں انہیں دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا۔

یوں فوج کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ پھر ڈان لیکس اور لاک ڈائون کے مراحل بھی آئے۔ اس جنگ میں میاں صاحب نے میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ دوسری طرف سے میڈیا کو اُن کے خلاف اور عمران خان کے حق میں استعمال کیا جانے لگا۔ اسی طرح سیاست بھی دو گروہوں میں بٹ گئی۔

سیاست کا جو حصہ اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنا اسے نوازا گیا اور جو مزاحم بنا، اسے دیوار سے لگا دیا گیا۔ یوں ہر فرد اور ہر ادارہ اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوگیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد فوج مذہبی انتہا پسندی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان کو ایک نارمل پاکستان بنانے کی بھرپور کوشش کرنے لگی۔ بعض نہایت مشکل فیصلے کئے اور طالبان یا جہادی تنظیموں کے حوالے سے بعض ناقابلِ یقین قدم بھی اٹھائے لیکن بدقسمتی سے اس دور میں سیاست، عدالت اور صحافت مکمل ابنارمل ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ فوج کی ان کوششوں میں حصہ نہیں ڈال سکیں۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر کوئی اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یوں جب تک پاکستان سیاست، عدالت اور صحافت کے حوالے سے نارمل نہیں ہو جاتا، تب تک مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کو نارمل بنانے کی اسٹیبلشمنٹ کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ شاید اسی تناظر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عرصہ سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست کو نارمل کرنے کی کوششیں نظر آرہی ہیں۔

گزشتہ سال کے اواخر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو رعایتیں ملنے لگیں اور جواب میں ان دونوں جماعتوں نے بھی اداروں سے متعلق اپنا رویہ بدل دیا۔ پی ٹی ایم جیسی تنظیموں سے متعلق بھی پالیسی میں تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ کسی حد تک میڈیا اور عدلیہ سے متعلق بھی رویے کی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں کچھ تقرریاں اور تبادلے اس کا ثبوت ہیں۔

اب اگر واقعی ایک فریق معاملات کو نارمل (نارمل سے مراد ہر ادارے کی اس دائرے میں واپسی ہے جو آئین نے مقرر کئے ہیں) بنانا چاہتا ہے تو سیاست دانوں، عدلیہ اور صحافت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا حساب برابر کرنے کے بجائے دستِ تعاون دراز کریں۔

اگر موقع ملتا ہے تو ادارہ جاتی تکبر میں مبتلا ہونے کے بجائے پورے خلوص کے ساتھ ملک کو نارمل کرنے کی کوششوں میں حصہ ڈالنا چاہئے۔

سب کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ یہ ملک سب اداروں کی مشترکہ کاوشوں کے بغیر نارمل نہیں ہو سکتا اور جب تک ابنارمل رہتا ہے تب تک جینے کے قابل نہیں رہے گا۔

اس لئے آئیے سب مل کر پاکستان کو نارمل ملک بنانے کی کوششوں کا آغاز کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کو دور کرنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے