محبت نامہ برائے فردوس عاشق

رانجھا ہاؤس

مجنوں نگر

ڈیئر فردوس عاشق!

سلامِ محبت۔ عام طور پر Love Letterخفیہ طور پر لکھا اور بھیجا جاتا ہے مگر عاشقِ نامراد کی رسائی نہ ہو تو وہ رسوائی سے نہیں ڈرتا اور مجنوں کی طرح لیلیٰ سے اپنی محبت کا سرِعام اعتراف بھی کر لیتا ہے۔

میری تم سے محبت ازل سے ہے اور تا ابد جاری رہے گی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اِس محبت کا آغاز اُسی وقت ہو گیا تھا جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور آپ بھی کہیں ستاروں میں رہتی تھیں۔

سچ تو یہ ہے کہ میرے گھر والے مجھے افسر بنانا چاہتے تھے مگر قسمت نے مجھے بےنوا صحافی بنا دیا۔ تمہارے والدین تمہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر تم سیاست میں آ کر وزیر، مشیر بن گئیں۔

اب بےنوا صحافی اور وفاقی مشیر کا کوئی جوڑ تو نہیں بنتا مگر داستانِ محبت سنانے میں کیا حرج ہے۔ تمہیں تو علم بھی نہیں کہ تم جب فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں پڑھتی تھیں میں اخبارات سے تمہاری خبریں کاٹ کر اپنی نوٹ بک میں لگا لیتا تھا۔

حتیٰ کہ میں نے اپنے تکیے تک پر تمہارا نام کڑھا رکھا تھا۔ گھر والوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس پر لکھا تھا فردوس بریں کا عاشق حالانکہ میں لکھنا فردوس کا عاشق چاہتا تھا مگر منظور تھا پردہ تیرا۔

زندگی میں تم سے کئی بار ملاقات ہوئی مگر مجھے حالِ دل بتانے کا کبھی حوصلہ نہ پڑا، اندر ہی اندر گھٹ کر مرتا رہا۔ سب دوست پوچھتے تھے تمہیں کیا غم ہے؟ میں کہتا فردوس نہیں ملتی وہ سمجھتے میں جنتِ گم گشتہ کی بات کرتا ہوں مگر قسم خدا کی، میں تو تمہیں ہی یاد کر رہا ہوتا تھا۔ کئی بار تمہارے نام محبت نامے لکھے مگر خود ہی پھاڑ دیئے۔

ڈیئر فردوس!

آج بھی یہ کھلا خط اِس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو پیشگی انتباہ کر دوں کہ آپ کے دشمن اور حاسد بہت متحرک ہیں کہیں آپ پر وار کر کے نقصان نہ پہنچا دیں۔

خانِ اعظم کے کان بھرے جاتے ہیں کہ فردوس کی ’’کلاس‘‘ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ محتاط رہنے کے حوالے سے تاکید اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ بنی نالہ میں شکایتیں بڑے غور سے سنی جاتی ہیں۔

وزیروں کی چغلی ہو یا گورنر سندھ اور پنجاب کے خلاف افواہیں، سب کو وہاں پذیرائی ملتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں سب لیڈر اور ورکر نوکریاں حاصل کر چکے ہیں، سینکڑوں سرکاری تعیناتیاں ہو چکی ہیں، صرف خان کے 3یار، عون چوہدری، جہانگیر ترین اور علیم خان بےروزگار ہیں۔

عون چوہدری ایک زمانے میں آل ان آل ہوتے تھے مگر کسی روحانی آنکھ میں ایسے کھٹکے ہیں کہ اُنہیں مشاورت کے عہدے سے بھی فارغ کر دیا گیا۔

جہانگیر ترین کو اپنے لیڈر کے تاوان میں قربان ہونا پڑا اور بےچارہ علیم خان جہاز چارٹر کر کے جوڑے کو مقدس سرزمین پر لے گیا مگر اس سفر میں اس سے پتا نہیں کیا غلطی ہوئی کہ جوڑے نے بیچارے کونظروں ہی سے دور کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن معاملات درست نہیں ہو سکے۔

اے مشیرِ با تدبیر!

مجھے علم ہے کہ کہاں میں اور کہاں تم، گلہری اور پہاڑ کا کیا مقابلہ، کہاں ٹاٹ اور کہاں ، کہاں اقتدار کا تخت اور کہاں بے نوا صحافی کا تختہ… مگر جرأت اس لئے پکڑی ہے کہ مجنوں پاگل ہو کر بھی لیلیٰ لیلیٰ پکارتا رہا۔

میں بھی ایسا کروں تو شاید تمہیں پا لوں۔ مجھے علم ہے کہ تم شروع سے ہی درویش ہو، عشق و محبت سے زیادہ انسانی خدمت پر یقین رکھتی ہو مگر میں بھی اپنے جذبۂ محبت سے مجبور ہوں۔

بہت سا وقت ضائع ہو چکا تم بوڑھی ہو رہی ہو میں بھی سفید بالوں والا ہوں۔ مگر عشق و محبت کے لئے عمر کی کونسی قید ہوتی ہے؟

پچھلے دنوں تم لاہور آئیں، ہم ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے تھے تم مجھ سے انسانی خدمت پر بات کرتی رہیں، میں بار بار اپنی زبان لبوں پر پھیرتا رہا کئی بار جی چاہا کہ آج اظہارِ محبت کر دوں مگر میری آواز ہی نہ نکل سکی۔

میرا اصل امتحان اس وقت شروع ہوا جب آپ سندس فائونڈیشن میں خون دینے کے لئے کرسی پر بیٹھ گئیں، میرا دل ڈوبنے لگا ڈاکٹر نے سرنج نکالی تو میری آنکھوں کے سامنےاندھیرا چھا گیا اور میں گھبرا کر وہاں سے دور چلا گیا۔

منتظمین کا بھلا ہو کہ تمہارے بار بار کہنے کے باوجود انہوں نے آستین پھاڑ کر خون لینے سے انکار کر دیا اور بروشر کے لئے صرف تصویر بنانے پر اکتفا کیا۔

مجھے علم ہے کہ آپ 22بار پہلے بھی خون دے چکی ہو 23ویں بار دینے میں بھی آپ کو اعتراض نہ تھا، باقی تو سب پروپیگنڈا ہے وگرنہ تمہاری سیاست سے سو اختلاف ہو سکتا ہے تمہاری انسانی خدمت اور تھیلیسمیا اور بیمار بچوں سے محبت سے تو دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا۔

انہی نادار مریضوں میں سے کسی کی دعا ہی تو لگی ہے کہ بہت سے منتخب ہو کر بھی عہدہ نہ پا سکے جبکہ آپ ہار کر بھی طاقتور وزارت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس دنیا میں کون ہے جو آپ کی درویشی اور خدمت کا اعتراف نہ کرے۔

اے فردوس عشق!

آج کل میں کچھ زیادہ ہی پریشان ہوں وزیراعلیٰ بزکش عرف دُلہا بھائی تمہاری بہت تعریفیں کرتا ہے، وہ تمہارےقصیدے پڑھتا ہے اور میرا دل جلتا ہے۔ جب سے میرا یہ نیا رقیب پیدا ہوا ہے میری نیند اڑ گئی ہے۔

ایک وقت تھا کہ میں روزانہ ڈار سیالکوٹی کے شر سے تمہیں بچانے کے لئے جادو ٹونہ کیا کرتا تھا اب میں نے دُلہا بھائی کا نام لے کر ان سے تمہیں بچانے کے لئے چلہ کاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جب سے دُلہا بھائی نوکر شاہی نے اختیارات لے لئے ہیں وہ کافی فارغ ہو گئے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ سارا وقت عشق و محبت پر صرف نہ کر دیں۔

چند ہی دن میں، میں اپنے مرشد کے پاس جا کر ڈار سیالکوٹی اور دُلہا بھائی کا بندوبست کروائوں گا اور ایسا بندوبست کروائوں گا کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

مجھے تمہارے ایک ملنے والے نے بتایا ہے کہ تم روحانی ہو چکی ہو، رومانی بالکل نہیں رہیں مگر میں نے امید کا دامن پھر بھی نہیں چھوڑا۔ تمہاری پیروی میں، میں نے بھی روحانی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ کم از کم روحوں کا ملاپ تو ہو سکے۔

ویسے بھی آج کل روحانی دور ہے ہر کوئی روحانی ہالے میں آ رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تک تو تقرری اور تبادلے بھی روحانی سلسلے کے اعتبار سے ہو رہے تھے لیکن جب سے نئے چیف سیکرٹری آئے ہیں انہوں نے روحانی سلسلہ بند کر کے افسر شاہی طریقہ اپنا لیا ہے۔

میری محبوبہ!

آخر میں درخواست ہے کہ میں بڑھاپے میں قدم رکھ چکا ہوں نہ نیا عشق کر سکتا ہوں، نہ تمہیں بھلا سکتا ہوں۔ اس لئے تم مہربانی کرو صرف اور صرف ہاں کر دو

۔ میں نہ تمہیں ملوں گا نہ کسی کو بتائوں گا، جونہی تمہارا اقرار مجھ تک پہنچے گا میں میڈیا اور روشنیوں کی دنیا چھوڑ دوں گا۔ اقرار کے لئے زبان سے کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہیں۔

آئندہ جب بھی لاہور آئو کیمرے کے سامنے آتے ہی مسکرا دینا، میں سمجھ جائوں گا کہ تمہاری طرف سے ہاں ہو گئی ہے اور میں پھر جوگ لے کر ٹِلّہ جوگیاں جا کر بسیرا کروں گا۔

فقط تمہارا مہینوال گجراتی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے