رسل ٹریبونل سے گلوبل ڈیموکریٹک ڈائیلاگ تک

ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی مکمل کرنے کو ہیں۔ سات ارب 80کروڑ انسانوں کا یہ قافلہ علم، تخلیقی سرگرمی، پیداواری عمل اور ٹیکنالوجی کے چار دیو ہیکل پہیوں پر آگے بڑھتا ہے۔ اِن چار عظیم الشان کائناتی قوتوں کو انسانی ذہانت کے اعلیٰ ترین اظہار کی مدد سے اقدار، ضابطے، پالیسی اور اداروں کی صورت میں ایک واضح سمت دینا سیاست کا منصب ہے۔ سیاسی تدبر پر حکمرانوں، ریاستی اہلکاروں اور غالب بیانیے کا اجارہ نہیں۔ ابنِ رُشد اور ابنِ خلدون کو انسانی امکان کے آفاق کو وسعت دینے کے لئے خلافت کا منصب درکار نہیں تھا۔ 1616میں پاپائے روم کا سکہ پورے یورپ میں چلتا تھا۔ بوڑھے گیلیلو کی دلیل کٹہرے میں تھی۔ نہتی دلیل اسقف اعظم کی جبروت پر فتح مند ہوئی۔ نیویارک کے سیانے ابراہم لنکن کو دیہاتی وکیل کہتے تھے۔ لنکن کے دل پر ہر اس کوڑے کا نشان تھا جو جنوبی ریاستوں میں کالے غلاموں کی پشت پر برسایا جا رہا تھا۔

خانہ جنگی کا نتیجہ جنرل گرانٹ اور جنرل لی کے درمیان طے نہیں پایا۔ غلامی کے خاتمے کا نقشہ لنکن کی بےخواب آنکھوں نے مرتب کیا تھا۔ گاندھی جی کو چرچل ہندوستان کا نیم برہنہ فقیر کہتا تھا۔ اس نسل نے اپنی آنکھوں سے نوآبادیاتی دنیا کو تاریخ کے غبار میں اوجھل ہوتے دیکھا۔ سو برس گزرے، جنوری 1918میں امریکی صدر وڈرو ولسن نے امن، جمہوریت، آزاد تجارت اور شفاف بین الاقوامی تعلقات کے لئے چودہ نکات پیش کئے تھے۔ یورپ کے بزعم خود مدبر اس پر استہزا کرتے تھے۔ معاہدہ ورسائی میں ان اصولوں سے انحراف دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوا۔

آج سے نصف صدی پہلے جنوری 1967میں برٹرینڈ رسل کی کتاب ’ویت نام میں جنگی جرائم‘ شائع ہوئی جس سے ویت نام پر رسل ٹریبونل نے جنم لیا۔ اس ٹریبونل میں پاکستان سے میاں محمود قصوری شامل تھے۔ انسانی ضمیر کی اس آواز کی لہریں کرہ ارض پر پھیلیں تو ہنری کسنجر کو 1975میں ویت نام جنگ لپیٹنا پڑی۔ 1967میں سخاروف نے جو نصب العین پیش کیا تھا، اسے ربع صدی بعد گورباچوف نے عملی شکل دی۔ طاقت اور ضمیر کی یہ لڑائی امن، انصاف، آزادی اور آسودگی کی جہد ہے۔ آج اس ذمہ داری کی نزاکت بڑھ گئی ہے۔

21ویں صدی نائن الیون کی صورت میں نمودار ہوئی۔ مذہبی دہشت گردی سرد جنگ کی کوتاہ نظر پالیسیوں کا شاخسانہ تھی۔ گزری دو دہائیوں میں جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانی ترقی کو بڑی زک پہنچی ہے۔ صرف غربت کا سوال اٹھائیے۔ 1970میں دو ارب بیس کروڑ انسان ایک ڈالر روزانہ سے کم آمدنی پر زندہ تھے۔ آج 75کروڑ انسان دو ڈالر روزانہ سے کم آمدنی پر سسک رہے ہیں۔ چین، برازیل اور بھارت وغیرہ میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد غربت سے نکل آئی ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار محض فریب ِ نظر ہیں۔ افراد اور ریاستوں کی سطح پر امیر اور غریب میں فرق یوں بڑھا ہے کہ چند درجن افراد دنیا بھر کی ایک تہائی دولت پر قابض ہیں۔ عراق، یمن اور شام جیسی جنگوں سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غربت سو فیصد بڑھ گئی ہے۔ کلکتہ کے فٹ پاتھوں، اندرونِ چین کی گلیوں اور پاکستان کے گوٹھوں میں غربت ننگے پاؤں چل رہی ہے۔ انسان جینے کے لئے بےلباس اور بےگھر ہونے پر مجبور ہیں۔ ہماری اجتماعی ناکامی یہ ہے کہ سرمائے نے جمہوریت کو یرغمال بنا لیا ہے۔ جنگ نے سائنس کو ہتھیار بنا لیا ہے۔ قومی آزادی کو داخلی خود مختاری کے نام پر استحصال کا آلہ بنا لیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے لئے آواز غداری قرار پا رہی ہے۔ مذہب، نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کی دیوار قائم ہے۔ ٹرمپ اور پیوٹن 17سالہ بچی تھن برگ کا مذاق اڑاتے ہیں تو دراصل منصب کی اوٹ سے اپنے چار پنس کے لئے کروڑوں انسانوں کو بھوپال کے یونین کاربائیڈ جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کیوٹو معاہدے کا نام نہیں، یہ انسانوں کے معیارِ زندگی اور تحفظ کو سرمائے کی سازش سے بچانے کا خواب ہے۔ انسانی حقوق کی صورتحال کسی ریاستی اہلکار کے بیان سے معلوم نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اصفہان، تبوک، ارمچی اور حلب کے باشندوں سے بات کرنا ہو گی۔ مودی، ٹرمپ، پیوٹن اور شی جن پنگ اپنے ملکوں کے حکمران ہو سکتے ہیں، ضمیر انسانی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جمہوریت، علم اور معاشی انصاف کو منطقوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا، ناانصافی کہیں بھی ہو، دنیا بھر میں ناانصافی کی دلیل ہے۔ ہماری نسل کا موقف بھی یہی ہے کہ ضمیر انسانی سے اٹھنے والے سوالات کا جواب ڈیووس فورم پر نہیں، افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے ان عالی دماغ انسانوں کے مکالمے سے برآمد ہوگا جو کھلی منڈی اور جمہوریت کے تضادات پر غور کرتے ہیں۔ کمیونزم کا تجربہ ناکام ہوا لیکن استحصال کی حقیقت نہیں بدلی۔ امن، انصاف اور مساوات کا خواب نہیں ہارا۔

ہمیں ایک عالمی جمہوری مکالمے کی ضرورت ہے جس میں سیاست، فلسفے، معیشت، سائنس، قانون، تاریخ اور فنون عالیہ کے چنیدہ نمائندے مل بیٹھیں۔ اسے Human Riposte Commission کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس مجلس میں کم از کم ایک تہائی شرکا کی عمر تیس برس سے کم ہو کیونکہ آج دنیا کی اوسط عمر تیس برس سے کم ہے۔ ملالہ یوسفزئی اور گریٹا تھن برگ محض علامتیں نہیں، آئندہ دنیا کے چہرے ہیں۔ اس مکالمے میں عورتوں کو برابر کی نمائندگی ملے۔ عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات سے آزاد کر کے عقل، صلاحیت اور رتبے کی مساوات مانے بغیر انسانیت کا امکان مکمل نہیں ہو سکتا۔ نئی دنیا کو مساوی معاشی مواقع اور شفاف جمہوریت کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہو گا۔ کالم نگار فہرست سازی کا اہل نہیں۔ کچھ نام یونہی سامنے آ رہے ہیں۔ ارجنٹائن کے فلسفی سائنسدان ماریو بنگے، بنگالی نژاد معیشت دان امرتیو سین، ایرانی منحرف شیریں عبادی، امریکی مدبر البرٹ گور اور چیک مصنف میلان کنڈیرا۔ اس سطح کے عالی دماغ ایک چھت تلے بیٹھ کر آج کے انسانی سوالوں پر غور کریں گے تو سرمائے، مذہب، نسل اور جنسی تفریق کی بنیاد پر کھڑی دنیا کا متبادل راستہ روشن ہو سکے گا۔ استحصال، ناانصافی اور تشدد کے خلاف ضمیر انسانی کا جواب ہماری صدی کا تاریخی قرض ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے