بھارت میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے‘ جس کی ضمانت بھارتی آئین کی شق نمبر 25-28 میں دی گئی ہے ‘ تاہم اسے بھارت کی بدنصیبی ہی کہیں یا کچھ اور کہ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد مودی سرکار اس شعور سے بے بہرہ دکھائی دیتی ہے ۔
سیکولرازم سے مراد ایک مذہبی اکائی کا غلبہ‘ اکثریت کی بالادستی یا لادینیت نہیں‘ بلکہ تمام مذاہب کو برابر کی آزادی اور پھلنے پھولنے کے مساوی مواقع حاصل ہونا ہے ۔سیکولرازم‘ بھارت جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے‘ زبانوں کو بولنے والے اور سماجی علاقائی وابستگیاں رکھنے والے گروہ آباد ہوں‘ اس کو اپنانا اور اسی کی راہ پر چلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کے مطابق جولائی 1946ء میں حصول ِآزادی سے قبل ہی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات عمل میں آ ئے‘ ان میں210 عام انتخابی حلقوں میں سے 99 نشستیں کانگرس نے حاصل کیں اور73 پرمسلم لیگ کامیاب ہوئی‘ مگر جب بھارت میں آئین سازی کیلئے 9دسمبر 1946ء کو آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا ‘تو مسلم لیگ نے اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ‘اپنے لیے نئی دوسری آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کر دیا تھا‘ لیکن اسمبلی نے آئین سازی کا کام جاری رکھااور11دسمبر کو ڈاکٹر راجندر پرساد‘ اس کے مستقل صدر منتخب ہو گئے ۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر کی سربراہی میں آئین کو تحریری شکل دینے کے لیے ایک مسودہ کمیٹی یاڈرافٹنگ کمیٹی بنائی گئی اور11دسمبر ہی کو اسمبلی کے اجلاس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے آئین کے اغراض و مقاصد کی قرار داد پیش کی‘ جو22جنوری 1947ء کو منظور کی گئی۔ یہ مقاصد آئین کے بنیادی نکات تھے ‘جن پر انڈین آئین کی بنیاد رکھی گئی ۔
14اور 15اگست کی درمیانی شب ‘ہندوستانی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کیا گیا‘ جس نے بعد میں جواہر لال نہرو کو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم کا حلف دلایا۔ ان کی کابینہ کے دوسرے وزرانے بھی ان کو حلف دیا۔ ہندوستانی اسمبلی کا کام باقاعدگی سے شروع ہوا ‘جوقریباً تین سال کی مسلسل محنت کے بعد نومبر1949ء میں اختتام پذیر ہوا۔ ہندوستانی آئین سازی میں صرف غیر مسلم ہی نہیں ‘بلکہ اس عمل میں مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا۔ آئین سازی میں مولانا ابوالکلام آزاد‘ بیرسٹر آصف علی‘ خان عبدالغفار خاں‘ محمد سعداللہ‘ عبدالرحیم چودھری‘ بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی جیسے بڑے نام شامل رہے۔ اس دستاویز پر سبھی ممبران نے دستخط کیے‘ مگر کچھ اختلافات کی بنا پر مولانا حسرت موہانی نے دستخط نہ کیے۔ اس اسمبلی کا آخری اجلاس دسمبر 1949ء کو منعقد ہوا‘ جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کاپہلا صدر منتخب کر لیاگیااور آئین کوجنوری1950 ء میں نافذ کر د یا گیا۔ یوںایک نام نہاد سیکولر ریاست کا آئین باقاعدہ ترتیب میں آیا اور اسی آئین میں تمام مذاہب کو برابری کے حقوق دئیے گئے۔
بھارت ‘جو عالمی سطح پر سب سے بڑی اور سیکولر جمہوریہ ہونے کی خوش فہمی میں مبتلاتھا‘ حالیہ مودی سرکار کے اقدامات کے باعث ‘آج واضح طور پر ایک ایسی ریاست کی حیثیت اختیار کر چکا‘ جہاں تعصب‘ تنگ نظری‘ مذہبی تفریق اور انتہا پسندی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ مسلم دشمن شہریت قانون‘ جس کے تحت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے ترکِ وطن کرکے 31 دسمبر 2014ء سے پہلے بھارت پہنچنے والے ہندو‘ عیسائی‘ سکھ‘ پارسی‘ بودھ اور جین مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی‘ لیکن مسلمان اس فہرست سے باہر رہیں گے‘ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے بعد صدرِ مملکت کی جانب سے یہ قانون منظورکیا جا چکا‘ جبکہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں کھلے تعصب پر مبنی اس قانون کے خلاف پُرتشدد احتجاج بھی جاری ہے۔
مغربی بنگال‘ مشرقی پنجاب‘ کیرالا‘ مدھیا پردیش‘ چھتیس گڑھ کی حکومتیں اور عوام اس متعصبانہ قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان حکومتوں نے متنازع قانون کو اپنی ریاستوں میں نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ احتجاج اور ہنگاموں کا دائرہ نئی دہلی سمیت بھارت کے شمال مشرقی علاقوں تک وسیع ہو چکا ہے۔
وسیع النظر اور سیکولر دانشوروں‘ نیز اربابِ سیاست کو ہندوستانی قومی زندگی کی ان وابستگیوں کے بارے میں بھی زیادہ روشن خیالی اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔سیاسی جدیدیت کے نام پر جو لوگ روایتی اور روحانی وفاداریوں کو جڑ سے قلم زد کر دینا چاہتے ہیں‘ وہ غلطی پر ہی نہیں ‘ان کی ذہنی صحت مندی بھی مشکوک ہے ۔ شاید وہ موجودہ دور کے مزاج سے واقف نہیں ‘ کیونکہ عہد جدید میں سیاسی نظام کی خوبی یا کامیابی کا انحصارتمام مذاہب کے افراد کی مذہبی آزادی‘ وفاداریوں کو مربوط کرنے کی اہلیت پر ہے‘ نہ کہ ان کو تباہ کر ڈالنے کے ارادے یا قوت کے ذریعے انہیں ختم کرنے پر۔
دنیا مودی سرکار کے فاشسٹ نظریے اور اقدامات سے آگاہ ہے ۔لندن سے شائع ہونے والے معتبر جریدوں میں سے ایک ”دی اکانومسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں یہ لکھا ہے کہ مودی ایک روادار اور متعدد مذاہب والے ملک بھارت کو ہندو ملک میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یوں مودی ‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘ نیز اس مضمون میں مودی سرکار کی پالیسیوں کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے ۔