5 اکست 2019 کو ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرکے حصے بخرے اور ان کا درجہ کم کر کے ہندوستان میں ضم کرنے کیا تو اس کے خلاف پاکستان بھر میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم غم وغصہ کی جو لہر اٹھی اس کی باز گشت NUML ( نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگیویجز- (نمل) کے شعبہ انٹر نیشنل ریلشنز کے ذریعہ 23/24 نومبر کو دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے ذریعہ بھرپور سنائی دی – یونیورسٹی کے ریکٹر میجر جنرل محمد جعفر سے لے کر پوری یونیورسٹی کے سٹاف اور طلباء نے اس میں نئی روح پھونک دی- پروفیسرز محترم ڈاکٹر عدنان سرور ، محترمہ ڈاکٹر ثروت رؤف ، محترمہ رابعہ عامر اور یونیورسٹی کے دیگر ہونہار بچوں اور بچیوں کی انتھک کوششوں سے کشمیر سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی اور ملکی سکالرز کو جمع کرکے قوم کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا بہ درجہ احسن مظاہرہ کیا-
کانفرنس کا تھیم ( مرکزی خیال) ایک کشمیری پنڈت سوئیر کول(Suvir Kaul)، کی کتاب Of Gardens and Graves سے اخذ کیا گیا تھا جو یوں ہے کہ:
” مسلم اکثریت ریاست ہونے کی وجہ سے اس کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہیے تھا یا پنجاب کی تقسیم کے ریڈ کلف کمیشن کی طرز پر اس کو تقسیم کرنا چاہیے ، لیکن پاکستان نے کشمیر پر قبائل کے ذریعہ حملہ کر کے مہاراجہ ریاست کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کر دیا ، جس وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا”
مجھے ملک کے اہم ترین ادارے کی اہم ترین یونیورسٹی کا ، کانفرنس کے لئے ایسا مرکزی خیال چننا اس لئے بہت اچھا لگا کہ ہمارے ملک میں خود احتسابی ، اپنی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کا ادراک کرنے کا رواج ہے نہ حوصلہ اور نہ ہی ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کا یارا ہے- کشمیر جیسے حساس موضوع، جس پر ہمارے عسکری اور وزارت خارجہ کے ارباب اختیار اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی 1990 کی تحریک تک اس کے قریب جانے سے بھی پر جلتے تھے، اب اس پر کھلے مزاکرے اور بحث و تمحیص ہورہی ہے-
دنیا کا ہر سیاسی ایشو سیاسی سرگرمیوں اور بحث و تمحث سے ہی حل ہو سکتا ہے – جنگ جیتی یا ہاری جائے ، اس کے ثمرات یا مضر اثرات پھر بھی سیاسی اقدامات سے ہی حل ہو سکتے ہیں – ہندوستان پاکستان کی جنگیں اور ان کے بعد summits ان کی کلاسیکل مثالیں ہیں-اس موضوع پر اس مرکزی خیال (theme ) کے پس منظر میں کانفرنس منعقد کرانے پر نمل یونیورسٹی مبارک باد کی مستحق ہے جس نے ریاستی سطح پر غلطیوں کا احاطہ اور ان کے ادراک کے لیے دعوت فکر دی ہے-
یو نیورسٹی کی انتظامیہ اس لحاظ سے خصوصی مبارک باد کی مستحق ہے کہ میری تجویز پر “کشمیریات “ کو یونیورسٹی میں ایک سبجیکٹ کے طور شامل کئے جانے پر بھی اتفاق کیا گیا –
اس کانفرنس کے مرکزی خیال (Theme )سے انسپائر ہو کر میں نے بھی اس مسئلے کے پیدا ہونے سے آج تک اس کے حل نہ ہونے اور اس سلسلے میں ہونے والی غلطیوں پر بہت غور کیا – پاکستان کے لوگوں اور حکومت کا کشمیریوں کے لیے بے پناہ پیار اور خلوص کے باوجود، حکومت پاکستان کے بہت سے آئینی اور سیاسی اقدامات جو اٹھانے چاہیے تھے، نہ اٹھانا اور جو نہیں کرنا چاہیے تھے ان کا کرنا بہت سے بنیادی سوالات کو جنم دیتا ہے جن کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا اور آج تک حل ہونے کو نہیں آرہا- ان غلطیوں کی سزا وادئ کشمیر کی تیسری نسل مسلسل بھگت رہی ہے-
برصغیر ہندوستان کو دو ملکوں میں تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق تقسیم کرنے کا اصول تین جون 1947 کو طے ہوگیا تھا اور قانون تقسیم ہند بر طانوی پارلیمنٹ نے 5 جولائی 1947 پاس ہوا- اس کے بعد ریاست کی نمائندہ پارلیمانی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ 19 جولائی 1947 کو الحاق کی قرارداد پاس کردی-
مہاراجہ کشمیر نے 15 اگست 1947 کو ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ہونے تک صورت حال کو دو سال تک جوں کی توں بحال رکھنے کا معاہدہ پیش کیا ( معاہدہ قائمہ ) (Stand still agreement )، جس کو پاکستان نے قبول کر لیا لیکن ہندوستان نے نہیں -اس کے بعد پاکستان کو کشمیر میں وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جو تاج بر طانیہ کو حاصل تھی جس میں ریاست کا بیرونی دفاع، مواصلات اور امور خارجہ تھے – ان امور سے جڑے دیگر بہت سے آئینی اقدامات اور اس کے بعد بہت سے سیاسی اور سفارتی اقدامات نہ اٹھانا یا اس کے خلاف اٹھانا ، بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
1- مجھے سوئیر کول (Suvir Kaul) کی اس بات سے کلی اتفاق ہے کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق پوری ریاست کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہیے تھا ، لیکن اگر پنجاب اور بنگال کے ضلعے اور تحصیلیں بھی تقسیم ہو سکتی تھیں تو ریاست جموں و کشمیر کیوں نہیں؟ اگر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر، ہندو ہندوستان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جموں ، اودھم پور اور کٹھوعہ کے ایسے ہندو اکثریتی علاقے جو ہندوستان سے ملحق تھے ، وہ ہندوستان کے ساتھ کیوں نہ رہیں؟
اس کے لیے اگر ریڈ کلف قسم کے کمیشن کا اس وقت ادراک کیا گیا ہوتا تو ممکن ہے یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی – ایسا کیوں نہییں سوچا گیا ؟
2- اس میں کوئی شک نہیں کہ سرحد کے قبائل کشمیریوں کی مدد کے لیے وادی میں داخل ہوئے ، جس سے حکومت پاکستان لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے جبکہ ہندوستان، وادئی کشمیر کے لوگ خود اور سلامتی کونسل اور کئی پاکستانی مورخ اور جنرل اس کا الزام حکومت پاکستان پر لگاتے ہیں اور اسی کے پس منظر میں سلامتی کونسل کی قرار دادیں بھی وجود میں آئیں –
جنرل اکبر کی کتاب میں یہ بات بھی لکھی گئی ہے کہ اس کی اطلاع اس وقت کے پاکستان آرمی کے انگریز چیف نے ہندوستان کو بھی دی تھی-
اگر یہ بدنامی مول ہی لینی تھی تو قبائل کو جموں میں سچیت گڑھ کے راستے پر کیوں نہیں چڑھایا گیا ، نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری ، جس طرح ہندوستان نے دھڑلے سے جونا گڑھ اور حیدر آباد میں کیا؟
3- کئی پاکستانی ، ہندوستانی اور غیر ملکی مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ سردار پٹیل ( جس کو ہندوستانی مرد آہن بھی کہتے ہیں اور کئئ ریاستوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کا سہرا اس سے ہی باندھتے ہیں ) نے حیدر آباد اور جونا گڑھ پر دعوے اور اس میں مداخلت سے باز رہنے کی صورت میں کشمیر پاکستان کو آفر کیا تھا –
اگر یہ درست ہے، تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا جو قانون تقسیم ہند کی منشا بھی تھی ، اس میں کوئی پیچیدگی بھی نہیں تھی اور اگر ایسا ہو جاتا تو جموں میں لاکھوں بے گناہ مسلمان بھی نہ مارے جاتے ؟
4- پاکستان نے تقسیم ہند کے اصول طے ہونے کے بعد حیدر آباد اور جونا گڑھ کے لیے اپنا وقت کیوں ضائع کیا جن کی عوام کی اکثریت غیر مسلم اور کوئی سرحد پاکستان سے بھی نہیں ملتی تھی جو الحاق کے لئے تقسیم ہند کے طے شدہ اصول تھے؟
اس کے برعکس کشمیر پر دلجوئی ، دلچسپی اور اور پوری طاقت کے ساتھ کام کیوں نہیں کیا جس کی غالب اکثریت مسلمان اور پاکستان کی حامی تھی؟
5- معاہدہ قائمہ کے بعد قبائل کو ریاست میں داخل ہونے ، کشمیر میں اشیائے ضروریہ خوراک، پٹرول، مٹی کا تیل، نمک گھی وغیرہ روکنے، کی کیا آئینی اور اخلاقی جوازیت تھی جس وجہ سے وادی کشمیر کے لوگ اس وقت قبائل کے ظلم اور لوٹ مار کے خلاف ہندوستانی فوج کے مدد گار بنے اور ان کو پاکستان سے بد ظن کیا گیا ؟
6- معاہدے کے بعد حکومت پاکستان نے جموں میں ہندوستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر اس کے بیرونی دفاع کے لئے اپنی فوج کیوں نہیں لگائی جبکہ ریاست کا بیرونی دفاع تاج بر طانیہ کے پاس تھا اور معاہدہ قائمہ کے بعد پاکستان کو وہی حیثیت حاصل ہو گئی تھی ؟
7- معاہدہ قائمہ کے بعد ریاست کے صدر مقام میں اپنا نمائندہ Resident کیوں مقرر نہیں کیا جو پاکستان کے مفادات کی نگرانی کرتا، ، جیسا کہ تاج برطانیہ کا Resident کرتا تھا ؟
8- ریاست کے وادی والے حصے کی ستانویں فیصد آبادی پاکستانی ذہن کی مسلمان، لیکن ان کی وابستگی صرف شیخ عبداللہ مرحوم کے ساتھ تھی ، پاکستان نے اس کو نظر انداز کر کے مہاراجہ کشمیر اور ایسی لیڈر شپ سے توقعات وابستہ کر رکھیں جن کا وادئ کشمیر میں کوئی اثر رسوخ نہیں تھا، ایسا کیوں ؟
9- جب ہندوستان یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے کے گیا ، کشمیری مجاہدین کشمیر کے مختلف حصوں میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ رہے تھے ، ان کو اعتماد میں لیے بغیر جنگ بندی کیوں قبول کی گئی ؟
10- یہی نہیں ، 1947, 1965, 1990 میں کشمیر کو آزاد کرانے
کے لیے جو مجاہدین اور 1999 میں کر گل کی چوٹیوں پر قبضہ کرنے کے لیے جو ریگولر فوج بھیجی ، اس سے پہلے کشمیر کی کسی بھی معتبر مسلمان لیڈرشپ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ، کیوں؟
ان چوٹیوں پر قبضہ ریگولر فوج نے کیا لیکن منسوب کشمیری مجاہدین سے کیا گیا، کیوں ؟
11- سیاچن جو ریاست کا حصہ ہے اور پاکستان کے کنٹرول میں تھا پر 1984 میں ہندوستان نے قبضہ کرلیا جس پر پاکستان کے صد ر جنرل ضیاء نے کہا یہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی ، اس کی واپسی کے لئے ویسا ایکشن کیوں نہیں لیا گیا جو 1999 میں ہندوستان نے کرگل کی چوٹیاں واپس لینے کے لئے کیا ، بصورت دیگر کرگل کی چوٹیاں خالی کرانے کے عوض سیاچن کا تقاضا کیوں نہیں کیا گیا اور جنرل مشرف نے لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کو خاردار تار کیوں لگانے دی ؟
12 – سال 1962 میں جب ہندچین جنگ شروع ہوئی ، 1964 ، جب کشمیر میں رسول پاک (ص) کا موئے مبارک غائب کیا گیا جس سے ہندوستانی حکومت بے دست و پا ہوگئی تھی ، 1990 تا 95 جب ہندوستان کی فوج اور پولیس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا بلکہ پولیس نے بغاوت کردی تھی، 2019 اگست جب ہندوستان نے کشمیریوں کو محبوس کر کے پوری ریاست میں کرفیوجیسی کیفیت اور ہر سطح اور سوچ کی کشمیری لیڈر شپ کو حراست میں لیا گیا اور جنگ بندی لائن پر کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے ، کشمیر میں فوجی ایکشن کیوں نہیں کیا گیا، جیسا ہندوستان نے مشرقی پاکستان ( بنگلادیش ) میں لیا تھا یا کشمیر کی سرحدوں پر کم از کم ہندوستان کے براس ٹیک قسم کے فوجی مشقیں کیوں شروع نہیں کی گئیں ؟
13 – ہندوستان کے وزیر اعظم نرسما راؤ نے جب سال — 1992 میں کشمیریوں کو اندرونی خود مختاری کی آفر کی تھی جس کی” حد آسمان تک “ کہا ، نہیں ماننے دیا گیا ، اس کے برعکس مشرف نے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا ( جس کو ہندوستان نے کبھی گھاس بھی نہیں ڈالی )، لیکن کشمیر کی تاریخ پر برا اثر اور پاکستان کی کمزوری ظاہر ہوئی ، ایسا کیوں کیا گیا ؟
14 -5 اگست 2019 کے ہندوستانی ایکشن کے بعد ، ہندوستان نے کشمیر پر باہمی بات چیت کے سارے دروازہ مکمل طور بند اور ریاست کا ایشو ہی اپنی طرف سے ختم کردیا ، اس کے بعد شملہ معاہدہ جیسے باہمی معاہدوں کا بحال رکھنا کیا معنی رکھتے ہیں ؟ ان تمام باہمی معاہدوں کو اسی کے جواب میں ختم کر کے معاہدہ قائمہ پر انحصار کر کے جوابی ایکشن کیوں نہیں کیا گیا ؟
15- پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے آزاد حصے “ آزاد کشمیر “ اور “گلگت بلتستان “ کو تقسیم کرکے دو الگ الگ انتظامی یونٹس بنانے کا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت کوئی اختیار تھا ؟ اگر نہیں ( جو یقینآ نہیں تھا) تو ایسا کر کے ہندوستان کو اس کے زیر قبضہ باقی صوبوں کی طرح ان کا پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں کوئی حصہ اور نمائندگی نہیں، نہ ہی ان علاقوں کے ساتھ کوئی آئینی تعلق پیدا کیا گیا ہے ، جب کہ ہندوستان نے پوری ریاست کو آئین کے تحت اپنا حصہ بنا لیا ہے ، یہ گو مگو کی کیفیت کیوں ؟
باقی سوالات کے علاوہ یہ سب سوالات بھی جواب طلب ہیں جس وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ تر ، پاکستان کی معیشت کمزور تر اور نظا م عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے – آج تک ہم اپنی غلطیوں کا ادراک، اعتراف ، اصلاح احوال اور مستقبل کا لائحہ عمل طے نہیں کر سکے، کیوں ؟
ان سوالات کے پس منظر میں کچھ تجاویز:
-کشمیر کے اندر ہندوستان کی 5 اگست 2019 کو آئین کی آڑ میں غیر آئینی دھاندلی کے بعد کے زمینی حقائق کی روشنی میں دنیا کے ہر کونے اور ادارے میں جارحانہ سفارت کاری ناگزیر ہے ، رد عمل والی سفارت کاری نہیں.
-ہندوستان کے ساتھ سوائے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی اداروں کے توسط سے باہمی معاہدوں کے ، ساریے باہمی معاہدے منسوخ قرار دیے جائیں.
– سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تابع پوری ریاست جموں کشمیر کو معاہدہ قائمہ کی روح اور قرار داد الحاق پاکستان کے مطابق پاکستان کے آئین میں شامل کر کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مہاراجہ کی ریاست کے برابر درجہ دیا جائے.
– سلامتی کونسل کو مطلع کیا جائے کہ اگر مقبوضہ ریاست کے محاصرے کو فی الفور ختم کر کے استصواب رائے نہ کرائی گئی اور ریاست میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھایا گیا ، وہ ریاست کے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جائے گا جس کے خلاف پاکستان ریاستی باشندوں کو نیوکلئیر تحفظ فراہم کرے گا.
– مقبوضہ کشمیر میں پابند سلاسل سب سیاسی قائدین کو پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کی روح کے مطابق وہ سب کچھ دینے کی پیشکش کی جائے جس کا وہ تقاضا کریں.
-امریکہ میں قائم مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے باشندگان ریاست کی تنظیم ” کشمیر سینڈ یکیٹ” سے ان کی خواہش کی صورت میں تعاون کیا جائے – پاکستان کوئی ایسی غلطی نہ کرے جو وادی کے لوگوں کے مجموعی جذبات کے خلاف ہو.
– کشمیر پر ثالثی کی کوئی بھی پیشکش حالات کو معمول پر لانے، وادئ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں لینے ، ہندوستان کے ساتھ سارے معاملات کا حل کرنے اور مستقبل میں اس ثالثی پر عمل درآمد کی مشینری سے مشروط کیے بغیر نہ مانی جائے-
– اب کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی عمل ، جارحانہ طرز عمل کے بغیردرست عمل نہیں سمجھا جائے گا –