دوپٹہ نا ہوا، اُڑتی پتنگ ہی ہو گیا۔ کیونکہ ہوا کے دوش پر اُڑتی پتنگ کی طرح دوپٹہ بھی زمانے کی بدلتی ہواؤں کے رحم و کرم پر ہے۔
جو کبھی ہمارے لباس کا ناگزیر حصہ تھا۔ اب اختیاری ہو گیا ہے۔ لگتا ہے وہ دن بھی بس آنے ہی کو ہے جب یہ کٹی پتنگ کی طرح گرتا پڑتا دنیا کی پستیوں میں کہیں کھو جائے گا۔
ہماری تہذیب کی طرح ہمارے ملبوسات بھی پُر کشش و حسین ہیں۔ برصغیر پاک ہند مختلف و متنوع علاقوں، تہذیبوں، قومیتوں پر مشتمل ہے۔ لہذا موسموں کا تنوع بھی ہے کلچرز کا بھی اور ملبوسات کا بھی۔ لیکن دوپٹہ ہر علاقہ اور ہر لباس کا لازمی عنصر ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے ترقی کی دوڑ میں ہم پاکستانیوں کا سارا زور لباس کے تغیرو تبدل پر ہے۔ وسائل کی کمی، مسائل میں اضافہ اور لباس میں اختصار ہی کو شاید ہم ترقی سمجھتے ہیں۔
آج کل کے لا ابالی نوجوان لڑکے لڑکیاں روایتی شلوارقمیض تو چھوڑ ہی چکے۔ ٹراؤزر، ٹی شرٹ اور جینز نے بہت سے جھنجھٹوں سے آزاد کر دیا ہے۔ روزانہ دھونا، استری کرنا پھر ویسے بھی شلوار سنبھالنا مشکل، ازار بند باندھنا نہیں آتا، اسی طرح دوپٹہ بھی پہلے سروں سے سرکا پھر گلے میں آیا، گلے سے شانوں پر اور اب وہ بھی شکلیں بدلتا ہوا عنقا ہو رہا ہے۔
شخصیت کا پہلا مظہر لباس ہے پھر زبان و بیاں۔ اور یہی لباس کلچر، آرٹ اور حسن و جمال کا مرکب بھی۔ فنون و ادب، فیشن انڈسٹری، صنعت و حرفت، سب کی ابتداء و انتہا کسی نا کسی طرح لباس سے منسلک ہے۔
شعرو شاعری میں محبوب کا سراپا اور اس کے ملبوس کے ساتھ بڑے ارمان جڑے ہوتے ہیں۔ کسی نازنین کے حسن کا تصور دوپٹے کے بغیر بنتا ہی نہیں۔ مصوری ہو یا دستکاری، کوئی علاقائی کلچرل شوز ہوں، شعرو ادب، ڈرامہ، تھیٹر اور فلم۔۔۔ سب میں پہلا مرحلہ لباس اور آخری جھلک لباس۔ اس لباس کا سب سے خوبصورت ، دلکش و حسین اور پرکشش حصہ دوپٹہ۔ اور اس کے لیے جو نام ہمارے ہاں رائج ہیں وہ بھی بڑے دلکش و شیریں ہیں۔ چنری ، اوڑھنی، چادر، شال دو شالہ وغیرہ۔ یہ سحر انگیز شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے الفاظ اپنے اندر معنی خیز روایات کو بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ چادر اور دوپٹے کیساتھ ایک معاشرت ایک نظام کا نقشہ کھچ جاتا ہے۔ جس طرح دوپٹہ غائب ہو رہا ہے اسی طرح وہ نظام بھی ختم ہو رہا ہے۔ مشرقی ادب اور لٹریچر (عربی، اردو، فارسی، ہندی) میں بھی اور روایتی اخلاق و آداب میں بھی ‘‘دوپٹے’’ کے ساتھ بہت سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف بھی وابستہ کئے جاتے ہیں۔ جیسے شرم و حیا، عزت و وقار، پہچان، تشخص، مقام و مرتبہ وغیرہ۔
دوپٹے کے ساتھ بہت حسین اور رومانوی تصورات بھی وابستہ ہیں۔ گھونگھٹ کیساتھ دل کی دھڑکن کا خیال، رنگ برنگی چنریوں کیساتھ دوشیزاؤں کا تصور آنا ۔ شالوں کیساتھ بیگمات کا اور اوڑھنیوں کیساتھ پردہ دار بی بیوں کا سراپا نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ ماں کے پلوؤں سے بچپن کی حسین یادیں اور روتے بسورتے ہوئے بچے، حسیناؤں کے دوپٹوں کو چھو لینے کی خواہشیں عاشقوں کے دلوں کو گدگداتی ہیں۔ ‘‘لڑ’’ پکڑ لینا استقامت اور رشتوں کی مضبوطی کی علامت بن گیا۔ ادبی زبان میں حسینوں کی شخصیت کا سحر اور کشش بہت حد تک دوپٹوں سے وابستہ رہا ہے۔ لباس کو مزید سے مزید پرکشش بنانے اور آرائش و زیبائش میں اضافہ کرنے میں دوپٹہ سرِ فہرست ہے۔ دوپٹے کا حسن لباس کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے اور شخصیت کو سحر انگیز اور جاذب نظر بنا دیتا ہے۔ دوپٹے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اور اس کی کمی نسوانی حسن و جمال میں ایک بے نمک کھانے جیسی بے کیفی پیدا کر دیتی ہے۔
دوپٹہ غریب غربا کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ عورتیں اس سے ہزار ہا کام لیتی ہیں۔ منہ ہاتھ دھویا تو دوپٹے سے پونچھا، بچے کا منہ، آنسو دوپٹے سے صاف کیے، دھوپ لگی تو دوپٹے کی اوٹ لے لی، شرم آئی تو دوپٹے میں منہ چھپا لیا، ہنسی دبانی ہو تو دوپٹے کا پلو منہ میں دبا لیا، کوئی کنفیوژن ہوا، جھجک محسوس ہوئی تو انگلیوں پہ لپیٹنا، مختصر یہ کہ بہت سی کہی ان باتوں اور اداؤں کا اظہار بھی دوپٹے کے طریقہ استعمال سے منسلک ہے۔ پہناوے کے اس دو ڈھائی گز کے سرسراتے لہلہاتے ٹکڑے سے زندگی کی کتنی معرفتیں حسن و ادا، اور شوخیاں وابستہ ہیں۔ پیرھن کے اس دلکش و دیدہ زیب جز کو ترک کریں گے تو اپنے کلچر کے کتنے حسین و جمیل لمحوں کو بھی دفن کر دیں گے۔ ہمارے گیتوں اور گانوں اور شعرو شاعری سے رمز و کنایہ اور استعارہ کا ایک گراں قدر ذخیرہ ناپید ہو جائے گا۔ کس قدر غیر شاعرانہ اسلوب ہو گا جب محبوب کے سراپا کے بیان سے ململ کا دوپٹہ یا جالی کی چنری کی جگہ باڈی ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ کا تذکرہ ہو۔ بوائے کٹ ٹنٹا کلر زلفیں اور چشم سیاہ کی جگہ گرین آئی شیڈز اور لینز والی رنگین آنکھوں کی بات ہو۔
تہذیبوں کا اکھاڑ پچھاڑ اور ردّ و بدل زندگی کا حصہ ہے۔ یہ تبدیلیاں تعمیری اور مثبت ہوں تو زندگی سنور جاتی ہے۔ ہمیں غورو فکر تو کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے معمولی معمولی اور بظاہر بےضرر انداز و اطوار آنے والے وقتوں میں کیا بڑے بڑے گل کھلائیں گے.
کیا گل کھلے گا دیکھئے ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم