5 فروری یوم یکجہتی کشمیر فقط فراڈ

5 فروری 2019 کی صبحِ یوم یکجہتی کشمیر منانے ڈی چوک جانے کے لئےجب سرینا ہوٹل کے سامنے بھائیوں اور دوستوں کے ہمراہ پولیس چیک پوسٹ پر پہنچا تو چیک پوسٹ پر موجود اسلام آباد پولیس کا جوان جس کا تعلق خیبرپختونخواہ سے تھا اپنے روایتی پختون انداز میں مجھے مطلع کرتے ہوئے کہا کشمیری بھائی لوگ اب ڈی چوک جا کر کیا کرو گئے؟ وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور تو وہاں سے پروگرام ختم کر کہ واپس روانہ ہو چکے ہیں۔

مجھے حیرت ہوئی کہ وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور گلبرگ گرین پی ٹی آئی کے آفس سے ہمارے ساتھ ہی قافلے کے ساتھ چلے تھے تو اتنے جلد کیسے پروگرام ختم کر کہ واپس روانہ بھی ہو گے۔بہر حال چیک پوسٹ پر موجود پولیس سٹاف سے اجازت لیکر ڈی چوک پہنچا تو واقعتاً وہاں پر صرف سردار امتیاز سابق سیکریٹری پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے علاؤہ کوئی اور قابل ذکر شخصیت موجود نہیں تھی اور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کی چند منٹ قبل وہاں موجودگی کے آثار وہاں پر ایک عارضی تختی کی نقاب کشائی کی صورت میں موجود تھی جس کا یادگار شہداء کشمیر کے لئے فاؤنڈیشن سٹون کی حیثیت سے افتتاح کیا گیا تھا۔اس افتتاحی تختی جسے فقط لکڑی کے ایک فریم پر بنایا گیا تھا اسکے ساتھ مجھے فوٹو سیشن کرتے ہوئے اس کا گر جانا آج بھی یاد ہے۔اس مرتبہ ڈی چوک پر منعقد تقریب میں دیکھنا ہے کہ اس یادگار شہداء کشمیر کا افتتاح ہوتا ہے یا کسی نئی تختی کی نقاب کشائی کی جاتی ہے؟

آج 5 فروری 2020 ہے اور 5 اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پوری دنیا کے سامنے ہر ایک زاویے سے عیاں ہو چکی ہے۔اس مرتبہ میرا دل ہرگز ڈی چوک جا کر یوم یکجہتی کشمیر منانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ہمارے سیاسی رہنماؤں کے کمیروں کے سامنے آ کر بیان جاری کرنے یا تصویریں کھنچوانے سے کشمیریوں کی مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی۔

وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر ہو یا ہر جمعے کو کشمیری قوم کے ساتھ یکجہتی کے لئے گھروں سے باہر آدھے گھنٹے کے لئے نکلنے کی کال ہو اس سے ہندوستان کی سرکار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔وزیراعظم عمران خان ٹرمپ سے ملاقات میں بار بار کشمیر کا ذکر کریں یا ڈی جی آئی ایس پی آر آخری گولی اور آخری سپاہی کی ٹویٹ جاری کریں نریندر مودی اور اسکی حکومت کو کشمیر کے معاملے پر کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ اپنی کشمیر پالیسی کو اسی ترتیب سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے لئے انہوں نے سالوں سے تیاری کر رکھی تھی۔

ہندوستان نے کشمیر پالیسی کے حوالے سے جس ٹھوس حکمت عملی کے ذریعے کشمیری عوام کے حقوق کو سلب کیا ہؤا ہے اسکا مقابلہ پاکستان کی موجودہ حکومت کرنے سے یکسر محروم نظر آتی ہے۔کشمیر ایشو پر حکومت پاکستان کی پالیسی ہر ایک ہفتے میں مختلف نظر آتی ہے کبھی تو وزیراعظم عمران خان اور انکی ٹیم یکدم کشمیر ایشو پر بیانات اور ٹویٹ سٹارٹ کر دیتے ہیں اور کبھی ہفتوں کشمیر ایشو پر کوئی بات نہیں ہوتی۔

ہندوستان کی ہٹ دھرمی دیکھیے سینئر کشمیری سیاسی قیادت کو عوام سے دور نظر بند یا قید میں رکھا ہوا ہے۔ہندوستان حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو کرفیو اور سوشل میڈیا انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے محروم رکھ کر کشمیری عوام کی سوچ کو محدود کرنے کی دور رس پالیسی کے تحت مطلوبہ نتائج برآمد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کشمیر ایشو پر 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے اور پاکستان بھر میں سرکاری سطح پر چھٹی منانے سے مسئلہ کشمیر کتنا اجاگر ہوتا ہے یہ اب غور طلب سوال ہے۔مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کی رہائی کے لئے حکومت پاکستان نے آج تک کیا عملی اقدامات کئے یہ سوال میرے ذہن میں ایک کشمیری ہونے کی حیثیت سے ہر روز نئے انداز میں جنم لیتا ہے؟مقبوضہ کشمیر کی عوام کو کرفیو سے نجات دلانے اور مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت واپس بحال کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی پاکستانی قوم کے نام تقریر اور اقوام متحدہ میں تقریر کے علاؤہ کیا عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ایسے سوالات ہیں جن کو سوچنے سے بغاوت کا عنصر حاوی ہونے کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔

کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقے میں ہندوستان کی جانب سے مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں بے گناہ انسانی جانوں سمیت بے زبان جانور بھی ہلاک ہونا اب بس خبر کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ایک جانب ہندوستان آذاد کشمیر پر حملہ کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو دوسری جانب پاکستان زمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے اقوام عالم کو اپیل کرتا ہے کہ ہندوستان کو ایسے اقدامات سے باز رکھے تا کہ جنگ جیسا ماحول پیدا نہ ہو سکے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں اپنی پالیسی کے مطابق ہر نئے دن میں پہلے سے بہتر کنٹرول حاصل کر رہا ہے۔

اقوام عالم ہو یا اقوام متحدہ اس وقت مسئلہ کشمیر ہندوستان کی مکمل گرفت میں ہے جبکہ پاکستان 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کا فراڈ دن منا کر اپنی ذمہ داری سے سے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔بھلا یوم یکجہتی منانے سے بھی کوئی خطہ کبھی آذاد ہوا ہے یہ سوال صحافی حضرات کو وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ضرور کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے