زندگی کی لکیر سیدھی نہیں ٹیڑھی میڑھی ہے۔ بالکل زگ زیگ۔ چلتے چلتے ایک موڑ آتا ہے جہاں ایک نیا رستہ ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ ہماری توقع کے برعکس۔ جو ہمیں اَن دیکھے منظروں میں لے جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی کا یہی غیر متوقع پن اس کا حسن ہے۔ میں اچھا بھلا ایف ایس سی کر رہا تھا‘ گھر والوں کا خیال تھا کہ میڈیکل کالج سے ہوتا ہوا میں ڈاکٹر بن جائوں گا۔ اس زمانے میں دو ہی باعزت اور بارعب شعبے تھے: میڈیکل اور انجینئرنگ۔ سو میں بھی والدین کے کہنے پر ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخل ہو گیا لیکن پھر اچانک میرا رخ آرٹس کی طرف مڑ گیا۔ یہ ایک بہت ہی مختلف دنیا تھی۔ بی اے میں میری ملاقات ایک ایسے استاد سے ہوئی تھی جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔ یہ میرے انگریزی کے استاد شیخ اشرف تھے۔ اب سوچتا ہوں‘ اگر میری شیخ صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو زندگی کی کتنی ہی دلکش چیزوں سے محروم رہ جاتا۔ شیخ صاحب نے بھلے وقتوں میں ایم اے انگلش کیا تھا اور پھر راولپنڈی گورڈن کالج کے عقبی دروازے پر واقع کالج روڈ پر اپنا پرائیویٹ کالج بنایا تھا۔
ایک استاد اپنی کلاس میں کیسے دلچسپی پیدا کرتا ہے کیسے اپنے مضمون میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتا ہے یہ جادو کوئی شیخ صاحب سے سیکھے۔ ہم شیخ صاحب کی کلاس میں داخل کیا ہوتے طلسمات کا ایک در کُھل جاتا۔ انگریزی ادب کے کیا کیا رنگ تھے جو شیخ صاحب کی کلاس میں کِھل اٹھتے اور ہمارے دلوں میں نقش ہو جاتے۔ شیخ صاحب کی کلاس میں ایک سال کے دوران میں نے اپنی زندگی کے دو بڑے فیصلے کیے۔ ایک‘ میں نے انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے اور دوسرا‘ میں نے استاد بنناہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے‘ انگریزی‘ جو ایک ایسا مضمون تھا جس سے میری جان جاتی تھی‘ شیخ صاحب کے طریقۂ تدریس نے مجھے اسی انگریزی ادب کا رسیا بنا دیا اور پھر گورڈن کالج میں حیرتوں کے بہت سے منظر میرے منتظر تھے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جن کی محفل میں بیٹھنا اور ان کی گفتگو سننا کسی نعمت سے کم نہ تھا خواجہ مسعود، سجاد شیخ، نصراللہ ملک، آفتاب اقبال شمیم، سجاد حیدر ملک، غرض جگمگاتے ناموں کی ایک کہکشاں تھی جس کی مہربان روشنی میں ہمارا وقت گزرتا تھا۔
پروفیسر سجاد شیخ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ کالج کے وقت کے بعد کتابوں کی دکانوں میں پائے جاتے تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی تازہ کتاب آئی ہو اور شیخ صاحب کو اس کا علم نہ ہو۔ گورڈن کالج کا اپنا میگزین”گورڈونین‘‘ تھا۔ اس کی ادارت ایک بڑا اعزاز تھی کیونکہ اس کے مدیران کی فہرست میں معروف ادیب جگن ناتھ آزاد کا نام بھی شامل تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے گورڈونین کا مدیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد میری زندگی میں حیرت کا ایک نیا در کُھلا جب مجھے راولپنڈی کی پُررونق زندگی سے منڈی بہائوالدین جانا پڑا‘ جہاں کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں میری تقرری انگلش کے لیکچرر کے طور پر ہوئی تھی۔ یہ1980 کا ذکر ہے۔ منڈی بہائوالدین کا قصبہ راولپنڈی کے مقابلے میں ایک خاموش سی جگہ تھی‘ جہاں وقت کی فراوانی تھی۔ یہاں میرا قیام مختصر تھا کیونکہ کچھ ماہ بعد ہی میری پبلک سروس کمیشن میں سلیکشن ہو گئی تھی اور میں راولپنڈی کے ایک کالج آ گیا تھا‘ لیکن اس مختصر قیام سے میری بہت سی خوبصورت یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ تدریس کے اس سفر میں مجھے مانچسٹر یونیورسٹی سے ایم اے اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کا موقع ملا۔ میرے لیے زندگی کبھی ایک سیدھی لکیر نہیں رہی۔ روزگار کا سفر مجھے منڈی بہائوالدین، اسلام آباد، کراچی، لاہور اور صوابی لے گیا جہاں مجھے پاکستان کے معروف اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں پہلے سے طے شدہ کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ کوئی غیر مرئی ہاتھ تھا جو میری انگلی پکڑ کر اجنبی راستوں پر لے جا رہا تھا‘ جو ان دیکھی منزلوں پر کُھلتے تھے۔
یہ2000ء کی بات ہے۔ اس وقت میں لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ تب میری زندگی میں صحافت کا دلرُبا دریچہ کھلا اور میں نے ایک معروف انگریزی روزنامے کے لیے کالم لکھنا شروع کیا۔ کالم کے موضوعات غیرسیاسی تھے۔ انہی دنوں معروف صحافی محترمہ زبیدہ مصطفی‘ جو ان دنوں روزنامہ ڈان سے وابستہ تھیں‘ نے مجھے ڈان کے ادارتی صفحات پر لکھنے کی دعوت دی۔ ان کا استدلال بڑا دلچسپ تھا کہ اخبارات کے ادارتی صفحات پر ملکی اور غیرملکی سیاست پر کالم چھپتے ہیں‘ کیوں نہ ایک ایسا کالم ہو جو تعلیم، زبان، ادب اور تاریخ کے حوالے سے ہو۔ یوں میں نے تقریباً آٹھ سال تک ان موضوعات کے حوالے سے ڈان اخبار کے ادارتی صفحات پر کالم لکھے‘ پھر اگلے پانچ چھ سال میرا کالم ایک اور انگریزی اخبار میں چھپتا رہا۔
اب مجھے انگریزی اخبارات کے لیے کالم لکھتے ہوئے تقریباً چودہ سال ہو چکے تھے۔ پھر اچانک ایک روز بیٹھے بیٹھے میرے دل میں ایک خیال نے سرگوشی کی‘ کیوں نہ اپنے خیالات و محسوسات کو اردو زبان کا ملبوس پہنایا جائے۔ اس خیال پر میں خود ہی ہنس دیا۔ میں اتنے عرصے سے انگریزی میں لکھ رہا ہوں‘ کیا اردو میں اتنی سہولت سے لکھ پائوں گا؟ یہاں یہ تذکرہ اہم ہے کہ جہاں انگریزی زبان و ادب میدان رہا وہیں اردو ادب سے بھی میری دلچسپی برقرار رہی لیکن اردو پڑھنا اور لکھنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک اور سوال یہ تھا کہ اردو کے کالم زیادہ تر سیاست کے حوالے سے ہوتے ہیں جس میں پارٹی سیاست اور حکمرانوں کے حوالے سے تبصرے ہوتے ہیں۔ کیا لوگ ایسے کالم میں دلچسپی لیں گے جو تاریخ، ادب، اپنی ثقافت کے حوالے سے ہو؟ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ صحافت کے آسمان پر اردو کالم نگاروں کی ایک طویل اور روشن کہکشاں ہے۔ میں اس میںکیا اضافہ کر پائوں گا؟ یوں میں اردو میں کالم لکھنے کی سرگوشی کو تھپک تھپک کر خود ہی سُلا دیتا۔
زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی۔ میں ایک انگریزی اخبار کے لیے لکھ رہا تھا کہ پھر ایک اور غیرمتوقع موڑ آیا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ لاہور میں ایک تقریب میں میاں عامر محمود اور میں ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ کالم نویسی کا ذکر شروع ہوا تو وہ کہنے لگے: آپ اردو میں کیوں نہیں لکھتے؟ میں حیران ہوا کہ انہوں نے میرے دل کی سرگوشی کو کیسے سن لیا؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا: کبھی کبھی سوچتا ہوں لیکن ہمت نہیں ہوتی۔ اب سوچتا ہوں تو یقین ہو جاتا ہے کیسے زندگی غیر محسوس طریقے سے آپ کی انگلی پکڑ کر اَن دیکھی راہوں پر لے جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے‘ پہلا کالم میں نے اپنی والدہ مرحومہ کے حوالے سے لکھا۔ اسے کئی بار لکھ کر دیکھا لیکن خود مطمئن نہیں ہوتا تھا‘ بہر حال یہ کالم چھپا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا۔ معاصر کالم نگاروں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ اس پذیرائی نے مجھے حوصلہ دیا۔ آج دنیا اخبار میں چھپنے والے ان کالموں کا انتخاب ”زیرِ آسماں‘‘ میرے سامنے ہے جو سنگِ میل پبلی کیشنز سے شائع ہوا ہے۔
میں محترم فتح محمد ملک صاحب کا شکر گزار ہوں‘ جنہوں نے اس کا دیباچہ تحریر کیا۔ میں محترم افتخار عارف، اظہارالحق، رئوف کلاسرا اور ڈاکٹر شفیق انجم کا ممنون ہوں جنہوں نے وقت نکال کر کتاب پر اپنی آرا کا اظہار کیا۔ محترم شکیل عادل زادہ کا خصوصی شکریہ جنہوں نے اس کالم کا مستقل عنوان ”زیرِ آسماں‘‘ تجویز کیا اور پھر ہر کالم کی اشاعت پر فون کر کے میری حوصلہ افزائی کی‘ محترم افضال احمد کا بھی جنہوں نے محبت سے ”زیرِ آسماں‘‘ کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ان تمام قارئین کا بھی جنہوں نے کالم نگاری کے نئے آہنگ کو پسند کیا اور سب سے بڑھ کر دنیا اخبار جس نے ان کالموں کو نمایاں جگہ دی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں زندگی کی لکیر سیدھی نہیں ٹیڑھی میڑھی ہے۔ بالکل زگ زیگ۔ چلتے چلتے ایک موڑ آتا ہے جہاں ایک نیا رستہ ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ ہماری توقع کے برعکس۔ جو ہمیں اَن دیکھے منظروں میں لے جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی کا یہی غیر متوقع پن اس کا حسن ہے۔