لاپتا خوشبو

یہ خزاں کچھ لمبی ہو گئی لیکن اب اس کی رخصتی قریب ہے۔ اس رخصت ہوتی خزاں کی دھوپ میں کچھ دوست مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ اب کے بہار کیسی ہو گی اور میں اُنہیں شرارتی لہجے میں ڈرا رہا تھا کہ ہاں بہار تو آنیوالی ہے لیکن یہ بہار خوشبو کے بغیر ہو گی، تمہیں پھول تو نظر آئینگے لیکن اُن میں خوشبو نہیں ملے گی۔

ایک دوست نے کہا، ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، ہماری خوشبو شہید ہو چکی۔ میں نے کہا، تمہاری خوشبو شہید نہیں ہوئی لاپتا ہو چکی ہے۔ یہ دوست مجھے دوپہر کے کھانے پر اسلام آباد کلب لائے تھے۔

جہاں ہم ایک خوبصورت لان میں لگی ٹیبل کے اردگرد بیٹھے لاپتا خوشبو کی باتیں کر رہے تھے۔ اردگرد کی ٹیبلز پر بیٹھے مرد و خواتین ہمیں عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ میں جن دوستوں میں گھرا بیٹھا تھا ان میں سوائے میرے باقی سب اراکینِ پارلیمنٹ تھے اور کچھ ہی دیر پہلے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ایک دوسرے کیخلاف صف آراء تھے۔ان میں سے تین کا تعلق حکومت اور چار کا تعلق اپوزیشن سے تھا۔

میں اس محفل میں موجود واحد صحافی تھا اور ایک طرح سے مجھے یہاں زبردستی لایا گیا تھا کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی خوشبو لاپتا ہے، اُنہیں اپنی اپنی خوشبو کی تلاش ہے اور وہ اس خوشبو کا پتا مجھ سے پوچھ رہے تھے۔

مجھ سے کچھ دور اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ایک بہت بڑے بیورو کریٹ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور آنکھ مار دی۔ میں اُنکا پیغام سمجھ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر اور ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے کی ایسی تیسی کرتے رہتے ہیں اور یہاں آپ کیساتھ بیٹھے ایک دوسرے کیساتھ گوش گپیوں میں مصروف ہیں۔

بڑے بیورو کریٹ حکومت اور اپوزیشن کے میل جول کو ہمیشہ اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بیچارے سیاستدان دن رات ان سرکاری افسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کیلئے سفارشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہماری اس محفل میں اپوزیشن کے ایک سینیٹر نے بڑا انوکھا مسئلہ چھیڑ دیا۔

وہ بتا رہے تھے کہ کافی دنوں سے بعض پڑھے لکھے نوجوان مختلف اراکینِ پارلیمنٹ سے رابطے کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ مل چکا ہے لہٰذا پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کی اجازت ملنی چاہئے۔

یہ سن کر مجھے لاپتا خوشبو بھول گئی۔ سینیٹر صاحب بتا رہے تھے کہ جب اُنہوں نے یہ بات کرنیوالے ایک نوجوان سے کہا کہ تم نماز پڑھا کرو تاکہ تمہارے دل و دماغ سے یہ فاسد خیالات نکل جائیں تو اُس نے کہا کہ آپ سینیٹ میں ایک تحریک تو پیش کر دیں۔ اُنہوں نے سختی سے انکار کیا تو اُنہیں دھمکی دی گئی کہ ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔

سینیٹر صاحب کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں ذہنی انتشار اور کنفیوژن بڑھ رہی ہے کیونکہ جب قومی اسمبلی معصوم بچوں سے زیادتی کرنیوالوں کو سرِعام پھانسی دینےکا مطالبہ کرتی ہے تو کوئی وزیر کہہ دیتا کہ سرِعام پھانسی اچھی بات نہیں اور پھر بحث یہ نہیں ہوتی کہ معصوم بچوں کیخلاف جرائم کیسے کم کئے جائیں، بحث یہ ہونے لگتی ہے کہ سرِعام پھانسی کی ہمارے دین اور آئین میں گنجائش موجود ہے یا نہیں؟

یہاں یہ بھی پتا چلا کہ ہم جنس پرستی کے حامیوں نے پارلیمنٹ میں موجود کچھ علماء سے بھی رابطہ کیا ہے لیکن وہ خاموش ہیں۔ یہ گفتگو بڑی پریشان کن تھی۔

میں سوچ رہا تھا کہ نوجوان کسی معاشرے کا اصل حسن اور خوشبو ہوتے ہیں جب نوجوان غیر ضروری اور غیر فطری معاملات میں پھنس جائیں تو پورے معاشرے کی خوشبو خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ہماری بحث کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی کہ حکمران اتحاد کی ایک اہم شخصیت نے کہا کہ آپ لوگوں کو نئی نسل کے ذہنی انتشار کی پڑی ہے یہاں تو ہمارے سب بڑے بڑے قائدین بھی ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔

اپوزیشن کے ایک صاحب جو کافی دیر سے چپ بیٹھے تھے، بڑے کاٹ دار لہجے میں بولے ہماری پارٹی کے صدر صاحب لندن میں بیٹھ کر پشاور بی آر ٹی منصوبے پر تنقید میں مصروف ہیں۔

اُنہیں یہ احساس نہیں کہ اُنکا اپنا ایک منصوبہ بھی بی آر ٹی بن چکا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کون سا منصوبہ ہے؟ اُن صاحب نے زہریلے انداز میں کہا ووٹ کو عزت دو کا منصوبہ…

آہستہ آہستہ حکومت اور اپوزیشن کے یہ دوست اپنی اپنی آستین سے الفاظ کے نوکیلے خنجر نکال کر اپنے ہی قائدین کی پشت میں پیوست کر رہے تھے اور مجھے کئی قائدین گھائل ہوتے نظر آ رہے تھے۔

پھر ہمیں احساس ہوا کہ اردگرد کی ٹیبلز پر موجود کئی نظریں مسکرا رہی ہیں اور کئی کان ہمیں سُن رہے ہیں تو ہم نے خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

ایک اپوزیشن والے نے کہا، چھوڑو یار اب تو بدنامی کا خوف بھی نہیں رہا ہمارے تو لیڈر ہی لوٹے ہو گئے، حکومت‘ حکومت نہ رہی، اپوزیشن‘ اپوزیشن نہ رہی۔ میں نے مسکرا کر کہا اور صحافت‘ صحافت نہ رہی۔ اس جملے پر یہ محفل برخاست ہو گئی۔

اگلے دن شام کو ایک وزیر صاحب مل گئے۔ وہ اس بات پر ناراض تھے کہ احسان اللہ احسان نامی ایک دہشت گرد ریاست کی تحویل سے فرار ہو گیا اور پوری کی پوری حکومت اس معاملے پر خاموش بیٹھی ہے کیونکہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔

مذکورہ وزیر کو یہ ندامت بھی تھی کہ حکومت نے لاہور میں اسحاق ڈار کے گھر کو ایک شیلٹر ہوم بنا کر سیاسی انتقام کی نئی مثال قائم کر دی ہے۔

میں نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ کابینہ ڈویژن نے ایف آئی اے سے کہا ہے کہ خواجہ محمد آصف کیخلاف آئین سے غداری کے الزام میں تحقیقات کی جائیں؟

وزیر نے جھکی جھکی نظروں کیساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے پوچھا کہ مریم نواز کو لندن جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں؟ وزیر صاحب نے کہا ہو سکتا ہے وہ عدالت سے یہ اجازت لے لیں تو پھر ہم اُنہیں نہیں روک سکتے لیکن اگر وہ چلی گئیں تو پھر مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنمائوں پر نئے مقدمات ضرور بنیں گے تاکہ عوام کو کسی ڈیل کا تاثر نہ ملے۔

تو جناب اصل بات یہ ہے کہ آج کل حکومت والے بھی پریشان ہیں اور اپوزیشن والے بھی۔ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، حکومت کو حکومت سے خطرہ ہے۔

اپوزیشن کو حکومت سے کوئی خطرہ نہیں، اپوزیشن کو اپوزیشن سے خطرہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کے اتحاد سے خارج کرکے ایک احتجاجی مہم کا اعلان کر دیا ہے۔ اُدھر بلاول بھٹو زرداری نےمارچ میں اپنے جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔

فرض کریں اس بکھری بکھری سی بدنام اپوزیشن کو فارن فنڈنگ کیس میں کوئی خوشخبری مل بھی جائے تو یہ کیا کر لے گی؟ شاید کوئی چہرہ بدل جائے لیکن حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو جائینگے۔ موسم تو واقعی بدل رہا ہے۔ بہار بھی آئیگی لیکن اس بہار میں خوشبو لاپتا ہو گی۔

سیاسی قوتوں کیلئے رسوائیاں ہی رسوائیاں ہوں گی کیونکہ جب یہ بدنام لوگ ملکر میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی خود مختاری پر ایک نئے حملے کا حصہ بن جائینگے تو پھر جمہوریت‘ جمہوریت نہیں رہے گی۔ بہتر ہے جمہوریت کو جمہوریت کی طرح چلایا جائے اسکی خوشبو کو لاپتا نہ کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے