قوم ناکام کیوں ہوتی ہے؟

اسلام آباد سے محبت کرنے والے اسے ’اسلام آباد ، دی بیوٹی فل‘کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں سے امڈتے بادلوں تلے دو رویہ جھومتے درختوں کے بیچوں بیچ برکھا کی بوندوں میں بھیگتی سڑکوں کے نشیب و فراز آنکھ میں ٹھنڈک بن کر اترتے ہیں۔

وہی نیشا پور کے نظیریؔ کی حکایت… کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست۔ یہ شہر لیکن پاکستان کا دارالحکومت بھی تو ہے۔ اسلام آباد کی راول جھیل میں ایک کنکر بھی گرتا ہے تو اس کی لہریں سیاست کے اتار چڑھاؤ میں عکس دیتی، تاریخ کے نشیب و فراز میں ڈوبتی ابھرتیں، باجوڑ سے گوادر اور شکر گڑھ سے اوباڑو تک 22 کروڑ انسانوں کی تقدیر میں ڈھل جاتی ہیں۔

اسلام آباد کی اسکائی لائن واقعی بیوٹی فل ہے لیکن اس شہر کی ٹیگ لائن بیوٹی اینڈ دا بیسٹ (Beauty and the Beast) سے عبارت ہے۔ نصف صدی پہلے شیخ مجیب نے کہا تھا، اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ پٹ سن کے کھیت، دھان کی پنیری اور رانگا ماٹی کے پانیوں کا خواب ہم سے چھن گیا اور اس سانحے پر بہت برس بیت گئے۔

اسلام آباد بدستور فالٹ لائن پر ہے۔ پاراچنار سے پنجگور تک، کھاریاں سے ٹھٹھہ تک ، دیس کی تصویر میں تناسب کا حسن بھرنا ہے تو اسلام آباد کی صف بندی کو سمجھنا ہو گا۔ کچھ خوش نصیب اقتدار کی صحیح سمت پر ہوتے ہیں اور کچھ حرماں نصیب تاریخ کے صحیح کنارے کا انتخاب کرتے ہیں۔

نظیریؔ سے چلنے والی بات خالصؔ اصفہانی تک پہنچتی ہے، یاراں مگر ایں شہر شما سنگ ندارد۔

لکیر کے ایک طرف دیوانے ہیں اور دوسری طرف طفلان ضرر آمادہ۔ برادر عزیز اعزاز سید بھی دیوانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک کالم لکھا، وزیر اعظم کیوں ناکام ہوتے ہیں؟ آٹھ نکات لکھے ہیں۔

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اعزاز سید نوجوان سوجھوان ہیں اور آنے والے کل کا اعزاز ہیں۔ خیال آیا کہ اس مصرعے پر گرہ لگائی جائے۔ آخر اس ملک میں 21 وزرائے اعظم ہی تو نہیں گزرے، کچھ دوسری پرفتوح ہستیاں بھی تو وقفے وقفے سے جھروکہ درشن دیتی رہیں۔

جاننا چاہیے کہ مرگِ ناگہانی کا حادثہ وزارتِ عظمیٰ پر گزرے یا چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو کوئی اور نام دے لیا جائے، ناکام تو قوم ہوتی ہے۔ قوم کی ناکامی پر غور کرنا چاہیے۔ قوم کی کامرانی کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔

پاکستان سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ یہاں بسنے والے ہر شہری کو زبان، نسل، ثقافت، عقیدے یا جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیے بغیر برابر کا رتبہ اور مساوی حقوق سے بہرہ مند تسلیم کیا جائے۔

شہری کو ہماری سیاست، ہماری کاوش اور ہماری مساعی کا موضوع سخن قرار دیے بنا قوم کا تصور مکمل نہیں ہوتا۔ اگر ہر شہری اس ملک کے سود و زیاں میں برابر کا شریک ہے تو کسی شہری کی وطن دوستی پر شک و شبہ قوم سے ناانصافی ہے۔ درد کے درماں کے لئے تشخیص کرنا ضروری ہے۔

آج اپنی بنیادی مشکلات کا ذکر کر لیتے ہیں۔ اگلی نشست میں، بشرطِ حیات، قوم کے امکانات کی تسطیر کی جائے گی۔

(1) قائد اعظم محمد علی جناح اور معدودے چند مستثنیات کے ساتھ، ہمارے حصے میں کمزور سیاسی قیادت آئی۔ سیاسی جماعت تنظیم اور نظریے کے مسلسل ارتقا سے مرتب ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو تحریک کہیں اور آتی ہے اور جلسہ کہیں اور ہوتا ہے۔

نم کہیں اور کا ہو، آنکھ کہیں جا کے بہے۔ ریاستی اہل کاروں کے زیر ہدایت سیاسی بساط بچھانے والا یہ گروہ آج تک ہماری سیاسی کمزوری چلا آتا ہے۔ یہ گروہ سیاست میں نہیں، اپنے ذاتی اور طبقاتی مفادات کے تحفظ میں یقین رکھتا ہے۔ الیکٹیبلز کا یہ ہجوم ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے اور کسی بھی جماعت کا حصہ بننے میں عار نہیں سمجھتا۔

مقامی سطح پر غیر جمہوری رویوں اور اجارے کے یہ رکھوالے ہمارے جسد سیاست کے گلے میں آویزاں طوق ہیں اور عوام دشمن قوتوں کا بہترین اثاثہ۔ اس مسئلے پر جمہوری قوتوں کو کھلے دل سے غور کرنا چاہیے

(2) پاکستان کے حصے میں متحدہ ہندوستان کے 17 فیصد معاشی وسائل آئے لیکن برطانوی ہند کی 33 فیصد عسکری قوت ہمیں ورثے میں ملی۔

معیشت اور سلامتی میں عدم تناسب نے ہمیں اس پیچیدہ بحران میں مبتلا کر رکھا ہے جسے انیسویں صدی کے یورپ میں پرشیا (Prussia) سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اس تفاوت کو تحارب کی بجائے ممکنات کے دائرے میں رکھ کر مکالمے کی ضرورت ہے۔

(3) خواندگی اور تعلیم میں ہماری پسماندگی نے ہماری آبادی کے ممکنہ اثاثے کو حقیقی بوجھ بنا رکھا ہے۔

دس کروڑ مطلق ناخواندہ افراد اور کروڑوں نیم خواندہ نفوس کی قابل مسابقت تعلیم پر ایک شفاف مکالمے کے بغیر ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا

(4) ہماری آبادی میں اضافے کی شرح محض لبرل اور ملا کا اختلاف نہیں، پاکستان کی کوئی حکومت اس رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔

(5) پاکستان چار وفاقی اکائیوں کے ایک باہم مربوط لیکن حساس بندوبست کا نام ہے۔ وفاق کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔ دستور کے احترام اور وفاق کے استحکام میں گہرا تعلق ہے۔ جمہوری بندوبست پر مستقل نزاع سے وفاق کمزور ہوتا ہے۔جمہوری بندوبست کو قابل استرداد شے سمجھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(6) دستور کی شق 25 دوٹوک لفظوں میں امتیازی سلوک سے تحفظ دیتی ہے۔ ہمیں امتیازی سلوک کی تمام صورتوں بالخصوص صنفی اور مذہبی امتیاز کو بیک جنبش قلم مسترد کرنا چاہیے۔ آدھی آبادی کو مفلوج رکھ کے قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مذہبی اقلیتوں کے شماریاتی حجم سے قطع نظر، عقیدے کی بنیاد پر امتیاز سے ریاست کا تشخص مجروح ہوتا ہے۔

(7) ہم نے بیرونی دنیا کے ساتھ مخاصمت کو داخلی یکجہتی کا نسخہ سمجھ رکھا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں۔ اس سے ہمارے معاشی، تمدنی اور سیاسی مفادات مجروح ہوتے ہیں۔ ہم کسی سیارے پر نہیں رہتے۔ ہمیں ہم عصر دنیا کیساتھ آج کی لغت میں مکالمہ کرنا چاہیے۔

اس کیلئے حقیقی سیاسی قیادت کو وقیع بنانے کی ضرورت ہے۔ آخری بات یہ کہ اسلام آباد کی فالٹ لائن پر قطبی مناقشے کے بجائے سائنسی تحقیق کرنی چاہئے۔ منقسم گھرانے کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور متحد گھرانے ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست ہمارا مکان ہے اور پاکستان کی قوم ہمارا گھرانہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے