صہیونیوں کی پہلی ریاست کی بنیاد پر سوویت یونین کے سابق دکٹیٹر جوزف اسٹالن نے رکھی تھی ، روس اورچین کی درمیان سرحدپرواقع پہلی یہودی ریاست کارقبہ 36ہزار کلومیٹر پرمحیط ہے جوکہ27 ہزار مربع کلومیٹر فلسطینی اراضی کے مقابلہ میں کافی بڑا ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی سمندری حدود نہیں لگتی ، عالمی میڈیا اور صہیونی تحریکوں پر لکھنے والے بیشتر مصنفین اسرائیل کے قیام سے متعلق بڑی تفصیلی معلومات فراہم کرنے کے باوجودبھی اس اہم ترین پہلوسے پردہ اٹھانے سے گریز کرتے رہے ہیں کہ یہودی کے لئے مخصوص کی جانے والی نظریاتی بنیاد پرقائم پہلی ریاست اسرائیل نہیں تھی بلکہ کرہ ارض پر یہودیوں کی پہلی ریاست بیروبیدجان تھی ، جس کی بنیاد 1934ءمیں سوویت یونین کے سابق ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے رکھی تھی ۔ روسی شہنشائیت کے خاتمے کے بعد1922ءمیں سوویت یونین اتحاد کا قیام عمل میں آیا تو روس میں موجود یہودیوں نے اپنے لئے الگ وطن کا مطالبہ ایک مرتبہ پھراٹھایا ۔چونکہ سوویت یونین میں ملحدانہ نظریات عروج پرتھے جس کے باعث مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کوبھی خاصی پریشانی کاسامنا تھا ۔
تاہم سوویت یونین کے پہلے قائد ولادی میر لینن کے جان نشین جوزف اسٹالن نے 1924ءمیں اقتدارسنبھالنے کے ساتھ سوویت یونین میں یہودیوں کو رواداری کے نام پر اہم عہدوں پر بٹھاناشروع کردیا ،جس کے ساتھ یہودیوں کے سنہری دورکاآغازہوگیا اور ان کی امیدیں بھرآئیں کہ اسٹالن عنقریب اس دربدرقوم کے لئے کسی ریاست کے قیام کااعلان کریں گے ۔یہودیوں کی خواہش کو دیکھتے ہوئے اسٹالن نے سوویت یونین کی سرزمین پر یہی صہیونی ریاست کے قیام کافیصلہ کیا ۔
اسٹالن نے پہلے القرم کو یہودی ریاست بنانے کافیصلہ کیا لیکن سوویت یونین کے یہودی سربراہوں کو کئی وجوہات کی بناءپر القرم پسند نہیں آیا۔ملحدانہ نظریات کی حامل سوویت یونین کی غیریہودی اشرافیہ بھی یہودیوں سے خاصی پریشان تھی جس کے باعث انہوں نے یہودیوں کو کسی ایسے علاقے میں بسانے کی تجویز دی جو ماسکو سے زیادہ دورہو، جس پر اسٹالن نے28مارچ 1928ءمیںسوویت یونین کی سرزمین پر مشرق بعید میں واقع اوبلاسٹ نامی خودمختار علاقے کو یہودیوں کے مستقل وطن کے طورپر منتخب کرنے کی منظوری دے دی ۔
روس اورچین کے درمیان سرحدکے طورپر بہنے والے دریائے آمور کے کنارے واقع اوبلاسٹ کو یہودیوں کامستقل وطن قراردیاگیا جس کے لئے سوویت حکام نے یہودیوں کی مذکورہ علاقے کی طرف ہجرت کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کاسلسلہ شروع کردیا ۔سوویت حکام نے ملک کے انتہائی مشرق کی سمت منتقل ہونے کے مقابل یہودیوں کو مالی رقوم بھی ادا کرنے کی منظوری دی۔7مئی 1934ءمیں جوزف اسٹالن نے اوبلاسٹ کو یہودیوں کے خودمختار ریجن کااعلان کیا ۔اس خودمختار علاقے کو یہودی وطن کانام دیا گیا جس کادارالحکومت بیروبیجان کے نام سے ہے ۔ اس ریاست میں رہائش پذیر یہودیوں کو تمام مذہبی آزادی دی گئی ہے جو آج تک قائم ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ یوکین ،بیلاروس اورمشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں سے یہودیوں نے اوبلاسٹ کارخ کیا ۔
1937ءاس علاقے کی آبادی 20 ہزارسے تجاوزکر گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی یہود مخالف پالیسی کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے بہت سے یہودی خاندانوںنے بھی بیروبیجان کی طرف کوچ کرلیا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اس علاقے کی یہودی آبادی پچاس ہزار سے متجاوزہوگئی ۔یہودی تنظیموں کے امورکے ماہرین کے مطابق مذہبی آزادی ملنے کے بعدیہودیوں کاخوف ختم ہوا اوروہ مطمئن ہوکر تجارت اوردولت کمانے کے ساتھ مذہبی امورپر بھی کام کرنے لگے اور یوں یہودی مذہب کے مورخین اورمصنفین نے بیت المقدس اور فلسطینی اراضی کو اپنے لئے اہم قراردے دیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین کے قیام سے معاہدہ بالفور ہوا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کوبسانے کا تصور پیش کیاگیا ۔چونکہ مشرقی یورپ سے بہت سے یہودی خاندان غربت اور بے روزگاری اور نسلی منافرت سے تنگ آکر پہلے سے ہی فلسطین جاکر پناہ لئے ہوئے تھے جہاں کے عرب باشندوں نے انہیں اپنے وسیع باغات اور اراضی میں پناہ دے رکھی تھی ۔ سوویت یونین کے مشر ق بعید میں واقع ہونے کے باعث اوبلاسٹ کاموسم سخت تھا جبکہ وہاں یہودیوں کو سوویت یونین کے ملحدانہ نظریات کےباعث اپنا مستقبل کچھ زیادہ بہتر نظرنہیں آرہاتھا ۔
معلومات کے مطابق اوبلاسٹ ریجن کایہودی علاقہ 36ہزار کلومیٹرپر محیط ہے ،جو27ہزار مربع کلومیٹر فلسطینی اراضی کے مقابلے میںبڑاہے لیکن سمندرکے ساتھ ملحق نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس فلسطینی اراضی کی سرحدیں دوسمندروں کے ساتھ ملتی ہیں جس کے باعث یہودی ماہرین نے اسے مناسب قراردیا ۔دوسری جانب سوویت یونین کے برعکس برطانوی استعمار بھی فلسطینی ارضی پر یہودیوں کوبسانے کامنصوبہ تیارکرچکاتھا جس کا باقاعدہ اعلان بالفور میں ہوبھی گیاتھا لہذا برطانوی تعاون سے یہودی ماہرین نے بیت المقدس سے متعلق انتہائی من گھڑت کہانیاں عام کرکے یہودیوں کو فلسطینی ارضی کا رخ کرنے کی دعوت دینے کاپروپیگنڈا جاری رکھا جس سے متاثرہوکر یہودی خاندانوں نے بیروبیدجان سے نکلنا شروع کردیا ۔1948ءمیں فلسطینی اراضی پراسرائیل کے قیا م کے اعلان کے ساتھ جہاں دنیا کے دیگر ممالک سے یہودی جمع ہونے لگے وہیںاوبلاسٹ سے بھی یہودیوں کی آدھی سے زیادہ تعداد فلسطین چلی گئی ۔
اس ریجن میں یہودیوں کی تعداد آدھی ہو گئی۔ یہودی اوربرطانوی میڈیا اور اعلامی اداروں نے بھی اوبلاسٹ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی سعی کی تاکہ یہودیوں کاوطن نہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ بے نقاب نہ ہوسکے ۔ رپورٹ کے مطابق اوبلاسٹ کی سرکاری زبان یدیشی ہے جو یورپ اورروس سے جانے والے یہودیوں کی سرکاری قومی زبان ہے اوردنیا کے نوے فیصد یہودی اسے بولتے اورلکھتے ہیں۔اوبلاسٹ کی مجموعی آبادی ایک لاکھ 70ہزار ہے ۔اس علاقے میں وسیع تر اراضی خالی پڑی ہے جس پر یہودی کاروباری شخصیات نے بڑے بڑے سوشل پارک اور فارم ہاﺅس بنارکھے ہیں۔ اوبلاسٹ کے دارالحکومت بیروبیجان میں جگہ جگہ عمارتوں ،عام شاہراہوں اور اہم سیاحتی مقامات پر یہودی نشانات لگے ہیں۔بیروبیدجان کے مرکزی اسکوائر میں یہودیوں کامخصوص شمعدان بھی لگا ہوانظرآرہاہے۔ اسرائیلی یہودیوں کی بڑی تعدادآج بھی ہرسال سیاحت کی غرض سے اوبلاسٹ کارخ کرتی ہے ۔اسرائیل کے بہت سے یہودی خاندان مستقل طورپر اسرائیل چھوڑکر بیروبیجان گئے ہیں۔
2008ءمیں اسرائیل سے 150یہودی خاندانوں نے اسرائیل چھوڑکراوبلاسٹ میں سکونت اختیارکی، 2010ءمیں 600یہودیوںنے اسرائیل چھوڑکر اوبلاسٹ کارخ کیا۔28جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے نام پر فلسطین اسرائیل کے دوریاستی حل کے نام پر جو منصوبہ پیش کیاگیا ہے اس کے بعد عالمی سطح پر بعض غیرجانبدار شخصیات نے اوبلاسٹ کامعاملہ پھر سے اٹھادیا ہے ان شخصیات نے تجویز دی ہے کہ اسرائیل کے بجائے اگر یہودی اوبلاسٹ کارخ کریں تو فلسطین اسرائیل دوریاستی حل انتہائی آسانی سے نکل سکتاہے ۔ یہ مطالبہ کرنے والوں میں برطانیہ کی ایک خاتون زیادہ پیش پیش ہے جس نے باقاعدہ طورپر اس معاملے کوایک مہم کی شکل دینے کااعلان کیا ہے ۔