پہلی جنگ کے خاتمے کے فورا بعد دنیا میں جگہ جگہ ریڈیو کے سگنلزعام لوگوں کی سماعتوں تک پہنچنے لگے۔ 1925 تک امریکہ، برطانیہ، روس اورجرمنی میں ریڈیو کی نشریات کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ بیک وقت ایک جگہ سے لاکھوں لوگوں تک بات پہنچانے کا یہ زریعہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بارمتعارف ہو رہا تھا۔ موسیقی، آوازیں ہوا کے دوش پر پہلی بار دور دور تک سنی گئی۔ اُس دور کی بڑی طاقتوں کے رہنما اگر ایک طرف خوش تھے کہ عوام کو اپنے ایجنڈے سے با خبر رکھیں گے، تو دوسری طرف خوفزدہ بھی۔ کیونکہ ریڈیو کےسگنلز سرحدوں کو کراس کر رہے تھے۔ اورعوام کو بھی اپنے لیڈرز پر تنقید کرنے کا بھی ایک زریعہ میسرآ گیا تھا۔ شروع ہی سے انہوں نے اس ٹول کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوششیں کیں اوراسے پروپیگینڈے کے طور پر استمعال کیا۔
برصغیر میں ریڈیو کا آنا بھی اُسی پروپیگینڈا کا تسلسل تھا۔ 1930 میں ریڈیو کی آزمائشی نشریات ممبئی اور دہلی میں شروع ہوچکی تھی۔ اور 1935 سے 1940 تک انڈیا کی مختلف زبانوں میں موسیقی نشرہوئی۔ مردان میں ایک عمر رسیدہ ریڈیو لسنر کے مطابق انہوں نے دہلی ریڈیو سے پشتو کا مشہور نغمہ (ما پری سیزی زی پہ مکیزونہ یارہ) مردان میں سنا تھا۔ برطانیہ سامراج نے انڈیا میں آغاز ہی سے نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے اوردوسری جنگ کی تیاری کیلئے ذہن سازی ریڈیو کے زریعے ممکن بنائی۔ اسکے برعکس برطانیہ میں 1920 سے 1940 تک (بی بی سی) آڈیٹوریل کی آزادی اور ریڈیو ٹرانسمیشن کا کمرشل استمعال رائیل چارٹر سے منظور ہوتا رہا۔ دوسری جنگ کیلئے نازیوں اور برطانیہ دونوں نے ریڈیو کو پروپیگنڈا کیلئے استمعال کیا۔
1935 میں انگریز سرکار نے سر صاحبزادہ عبدالقیوم کو پشاور ریڈیو تحفے میں دے دیا۔ لیکن اس ریڈیو سٹیشن کے زریعے بھی انگریز سرکار نے موجودہ خیبر پختونخوا، اورسابق فاٹا کےعلاقوں تک اپنے پروپیگنڈے کا تسلسل قائم رکھا۔ اسی اسٹیشن سے ا سٹیشن انچارج اسلم خٹک کا لکھا ہوا پہلا پشتو ڈرامہ (د وینو جام) جام خون نشر ہوا۔ حقیقت میں برطانوی استمعار نے آرٹ کے زریعے بھی اپنا تسلط قائم رکھنےکی بھر پور کوششیں تو کیں، لیکن ان کوششوں نے خطے کے آرٹسٹوں کے لئے بھی راہیں کھول دی اور انہوں نے بھی آرٹ ہی کے زریعے مخالف نظریے کا مقابلہ کیا۔ لاہور میں ریڈیو کا قیام پشارو سٹیشن کے بعد ہوا تھا، لیکن لاہور کی نشریات پشاورریڈیو سے زیادہ نشر ہوتی تھی۔
بٹوارے کے بعد برطانیہ نے جتنے بھی ریڈیو سٹیشن بنائے تھے وہ انڈیا اور پاکستان کے حصے میں آئے۔ برٹش راج کا خاتمہ تو ہوا لیکن 1950 سے 1970 تک ریڈیو پاکستان کی پالیسی ویسی رہی۔ مردان میں اسوقت کے کچھ ریڈیو لیسنرز سے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ پشاور سٹیشن سے پشتوں زبان کی نشریات بہت کم اور وقفوں سے آتی تھی۔ لوگ پشتو ٹرانسمیشن کو بڑے شوق سے سنتے تھے، اورریڈیو سیٹ کو ہرحجرے میں میز پر اہتمام کے ساتھ رکھ دیا جاتا تھا اور لوگ اسکے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ریڈیو نے بہت بڑے بڑے فنکار پیدا کیے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی پسند سوچ رکھنے والے فنکاروں کو وہ موقع نہیں ملا جو ملنا چاہیئے تھا۔ یہاں تک کہ صداکاروں اور لکھاریوں کو اُنکے متبادل نظریے کی بدولت ریڈیو پاکستان سے نکالا گیا۔
پشتو کے مشہور شاعر اور سیاستدان مرحوم اجمل خٹک پر ریڈیو پاکستان پشاورمیں بولنے پر پابندی تھی۔ جب پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت تھی تو ان دنوں تو ریڈیو پاکستان پرجنرل ضیاء کے بیان کردہ مذہب کی چھاپ لگ چکی تھی ۔ نفسیاتی جنگ جیتنے اورافغان جہاد کے پروپیگینڈا کیلئے ریڈیو کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے ایک پرانے اہلکارکے مطابق امریکا نے بھی 80 کی دہائی میں 2 سال کیلئے ایک ریڈیو پشاور میں انسٹال کیا تھا، جس کا مقصد افغان جنگ کیلئے لوگوں کی ذہن سازی کرنا تھا۔ 1998سے 2004 تک پاکستان میں پہلی بار ایف ایم ریڈیوز منظر عام پر آئے۔ ایف ریڈیو کے لائیسنس پرائیوٹ ہوئے تو روایتی ریڈیو نشریات سے ہٹ کر ایف ایم پر قومی نغموں کے علاوہ نئی موسیقی اور موضوعات نشریات کا حصہ بنے۔ مشرف کے دور حکومت میں ایک طرف ایف ایم ریڈیو سے لیسنرز کو نئی موسیقی تو سننے ملی، لیکن دوسری طرف ایف ایم ریڈیو طالبان کے ہاتھ لگا۔ سوات میں ملا فضل اللہ نے ریڈیو ہی کے زریعے اپنے نظریے کو سوات میں عام کیا۔ اسی طرح خیبر ایجنسی میں بھی منگل باغ نے ریڈیو کے زریعے پرچار کیا۔ 2007 سے 2014 تک خیبر پختونخوا میں ریڈیو سے ہی ایکسٹرمیزم کے خلاف بیانئے کو تقویت دی گئی۔ یاد رہے کہ اس دوران ریڈیو کا لائیسنس حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ان 7 سالوں میں ریڈیو کی زیادہ تر نشریات مختلف این جی اوز نے سپانسر کیے جس سے ریڈیو میں پہلی بار ہیومن رائیٹس سے متعلق موضوعات ایک حد تو زیر بحث آئے- لیکن سیاسی اورمتبادل نظریہ پھر بھی صیح معنوں میں زیر بحث نہیں آیا۔ 2010 میں ریڈیو نے سیلاب زدگان، حکومت اور غیر سرکاری امدادی ادروں میں ایک پل کا کردار ادا کیا۔
آج بھی خیبر پختونخوا میں کم بیش 20 ریڈیو سٹیشن حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہیں. جس میں قومی خبروں کے علاوہ معاشرتی موضوعات پر بحث ہوتی ہے لیکن اس بحث میں حکومت پر تنقید نہیں ہوتی۔ اورپرائیوٹ ایف ایم کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ اج اگر کوئی خیبر پختونخوا میں سرکاری ریڈیوز کے علاوہ کسی بھی ایف ایم ریڈیو کو ٹیون کرے، تووہ آدھے گھنٹے بعد بواسیر اور گردے کی پتھری کے علاج کا کمرشل ضرور سنے گا ۔ ایف ریڈیوز سے حکیموں کا روزگار بھی اچھا چل رہا ہے اور ریڈیو کے مالک کا بھی۔ پرائیوٹ ایف ایم پرزیادہ تر تفریح اورغیرمعیاری پروگرام نشر ہوتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں ریڈیو آج بھی پاپولر میڈیم ہے، خصوصی طور پر سفر کے دوران ریڈیو سنا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا مقامی خبروں اور تجزیوں پر اعتباراسلیئے بھی ہے کہ وہاں ایف ایم ریڈیو حقیقی کہانی نشر کرتا ہے۔ معاشرے کے ہر موضع پر قدغنوں کے بغیر بحث ہوتی ہے۔ ریڈیو ایکسپرٹ فرانس رولٹ (ڈاریکٹر ریڈیو فار فیس بیلڈنگ) نے مختلف ملکوں میں ریڈیو نشریات کے زریعے تنازعات کے حل کیلئے کام کیا ہے۔ ان کے مطابق ریڈیو امید کو زندہ رکھتا ہے، ادروں کو جواب دہ بناتا ہے اوراگرمخالف نظریوں کو ایک جیسا موقع ملے تویہ تنازعات کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
لیکن کیا پاکستان میں ریڈیو تنازعات کے حل کیلئے استمعال ہوتا ہے؟ اورکیا نیوزیا تجزیوں پر ایک عام آدمی کا اعتبار ہے؟ اسکا مجھے علم نہیں البتہ تجربے کے لحاظ سے بتا سکتا ہوں کہ خیبرپختونخوا اور ضم شدہ علاقوں میں لوگوں کا مقامی ریڈیوز کے خبروں اور تجزیوں پر اتنا اعتبار نہیں ہے جتنا باہر کے ریڈیوز پر ہے۔
حقیقت میں ریڈیو شہریوں اور حکومت کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردارادا کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے نوآبادیاتی دور سےلیکر اب تک ریڈیو کو ہر کسی نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استمعال کیا اور اسکی حقیقی شکل آج تک سامنے نہیں آئی۔