21 فروری – بنگالی زبان کی تحریک کا عروج اور پنجاب کا کردار

آج 21 فروری ہے، مادری زبان کا عالمی دن. معلوم ہے کہ یونیسکو نے اس دن کو مادری زبان کے عالمی دن کی حیثیت کیوں دی؟ جی بالکل، تحریک لسان بنگالی جو 1948 میں تب ہی شروع ہوچکی تھی جب سرکاری طور پر اُردو کو دفتری زبان کی حیثیت مل رہی تھی اور بنگال سے کچھ طلبہ اور سیاستدانوں نے اس بات پر اعتراض کرتے ہوئے ایک تحریک کا آغاز کیا تھا. اس ضمن میں جتنے بھی احتجاج ہوئے ریاست پاکستان ان کو غیر قانونی اور غداری گردانتی رہی. جی غداری کلچر بھی یہیں سے شروع ہوا تھا. ریاستی بیانیے کے مطابق ملک پاکستان کا سب سے پہلا غدار بنگالی ہی تھا.

جس وقت لسانی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اور پاک افواج کے اس عوام پر ظلم و ستم پر بنگالیوں کا ساتھ دینا تھا، پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے اخبار ریاستی بیانیہ لکھ رہے تھے، حتاکہ وارث میر اس وقت نوائے وقت میں لکھتے ہیں کہ مجیب الرحمٰن ہی واحد ذمہ دار ہے جس نے مسلمانوں کو باہم تقسیم کرکے رکھ دیا. خیر جب ریاست پاکستان نے بنگالیوں کے زبان کے حق پر غداری کا ٹھپہ لگاتے ہوئے اس کے حق میں ہونے والے تمام جلسہ جلوسوں کو غیر قانونی اور آئیندہ ہونے والے جلسوں پر پابندی عائد کردی تو کچھ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ نے 21 فروری 1952 کو اس فیصلے کے خلاف ایک پرزور احتجاج کیا. اہم بات یہ کہ وہ احتجاج تحریک میں ایک نئی روح پھونک گیا اور اس تحریک کو عالمی شہرت مل گئی. یونیسکو نے مادری زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے دفاع کرنے والوں کے اعزاز میں 21 فروری کو عالمی یوم مادری زبان کا درجہ دے دیا.

یہی بات جب ہم کہتے ہیں کہ اُردو کی اہمیت اپنی جگہ، کراچی میں چند ایک لوگ لسان کی بنیاد پر خود کو حساس سمجھ کر یہ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟ یا بلوچ، سندھی، پشتون، بلتی ان تمام کے علاوہ بھی بیسیوں ایسی مقامی زبانیں ہیں، ہمیں ان کی اہمیت کا احساس تب ہوگا جب ہم اس درجے پر خود کو رکھ کر محسوس کریں گے. کل ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں ایک خاتون پنجابی کو غیر مہذب زبان کہتی ہیں اور اس سے پنجاب کے باسیوں کو دل دکھتا جاتا ہے اور وہ غم و غصے کا بھرپور اظہار کرتے ہیں. مجھے یہ سب دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوا اور میں نے سوچا کہ کاش اس قوم نے دوسری قوموں کے اسی نوعیت کے درد کو سنجیدگی سے سمجھا ہوتا اور ان کا بھی درد محسوس کیا ہوتا تو پنجاب کے خلاف رنجشوں میں کچھ تو کمی واقع ہوتی.

لسانی بنیادوں پر امتیازی سلوک دراصل خطے یا معاشرے میں رہتے ہوئے بڑے بھائیوں کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے. تحریک اردو بھی اسی خطے سے جڑی ایک اہم تاریخی سبق کی طرف اشارہ کرتی ہے. تحریک اردو کی ضرورت بھی تبھی پیش آئی جب مذہبی اور معاشرتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویہ محسوس کیا گیا اور مسلمانوں کے لیڈران نے اس کو یکجا کرنے کا ایک موثر طریقہ جانا. ثابت ہوا کہ زبان کا تعلق نفرت سے نہیں بلکہ اظہار سے ہے. اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کے مقصد کو اس تحریک نے تقویت بخشی.لیکن یہ بھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس تجربے کی توسیع کچھ کارآمد ثابت نہیں ہوئی. مقامی زبانوں نے اُردو کے خود پر غالب آنے پر مزاحمت کی اور وہ کافی حد تک منطقی بھی تھی. میں یہاں دوہرا رہا ہوں،میری اس رائے کو اُردو یا دوسری غالب زبانوں کے خلاف محاذ آرائی نہ سمجھا جائے.

بالکل ویسے ہی جیسے افریکی کالوں کی شناخت کی سیاست میں ان کی زبان کو رد کیئے جانے پر "بلیک لینگوئج میٹر” کے نام کی زیلی تحریک کا تعلق کسی دوسری زبان سے نفرت نہیں بلکہ اپنی زبان کا دفاع کرنا ہے. مقامی زبانوں کی اہمیت کو جانیں، کسی زبان اور اس زبان کے بولنے والوں سے امتیازی رویہ نا ہی روا رکھیں اور نا ہی روا رکھنے دیں، چاہے وہ آپ کے حق میں ہی کیوں نا ہو. آج پنجاب کے باسیوں کو بنگال کی لسانی تحریک سے سبق لینے کی ضرورت ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے