طہ حسین کی "في الادب الجاہلی”

طہ حسین عربی ادب کے نامور اور اپنے دور کے بڑے اور موثر ادیب گزرے ہیں، 1889ء کو مصر میں پیدا ہوئے، تین سال کی عمر میں چیچک کی بیماری کے باعث قوت بصارت سے محروم ہوگئے۔شاید قدرت نے اس کے عوض بے مثال ذہانت اور حیرت انگیز یاد داشت اور حافظے سے نوازنے کا ارادہ کیا ہو، چنانچہ نابیاناہونے کے باوجود نہ صرف دینیات ولسانیات میں جس کی وجہ سے وہ عموما شہرت رکھتے ہیں، دیگر علوم فنون جیسے فلسفہ وغیرہ میں بھی کمال دسترس حاصل کی، عربی ادب میں لا جواب کتابیں لکھی ، ان کا اسلوب نہایت سلیس، شیرینی اور کشش سے بھر پور ہے، افکار وخیالات اور معانی ومطالب کے ساتھ جمالیاتی، انداز اور حسن وشائستگی بھی کمال کی ہے۔

مجھے ان کی کتاب "الادب الجاہلی "ملی ، اسے پڑھنے لگا، تو بڑی دلچسپ لگی، خاص کر عربی اسلوب وتعبیر کے حوالے سے، مواد پر تو اگلی سطور میں تبصرہ کرنے کی کوشش کروں گا، مگر کتاب میں اختیار کردہ اسلوب بڑا جاذب ہے، مجھے زمانہ طالب علمی میں ان کی مشہور زمانہ کتاب”الوعد الحق” پڑھنے کی توفیق ملی تھی جس میں مولف نے بڑے خوبصورت انداز میں ظہور اسلام کی عکاسی کےلیے حضرت عمار بن یاسر اور ان کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما پر ڈھائے جانے ولاے مظالم کا نقشہ کھینچا ہے (کتاب کا اردو ترجمہ عبد المجید حریری نے "وعدہ برحق "کے نام سے کیا ہے۔)، بعد میں ان کی آپ بیتی "الایام ” کی ورق گردانی بھی کی، "الشیخان” اور "فی الشعر الجاہلی” بھی سرسری دیکھی ہے۔تاہم یہ کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے اچھوتی کتاب ہے، جس میں انہوں نے یہ بات ثابت کرنے پر زور دیا ہے ، کہ عربی ادب کا منظوم ذخیرہ جس کی نسبت جاہلی شعراء کی جانب کی جاتی ہے، درست نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ اشعار ان کے نہیں ہیں، بلکہ دینی ، سیاسی اور قومی اغراض کے پیش نظر گھڑ کر، یا غلط بیانی کرکے ان کی طرف منسوب کیے گئے ہیں۔

عربی شاعری کے بار میں ان کا "فلسفہ شک”ان مضامین سے شروع ہوا ، جو انہوں نے "ابو نواس ” کی شاعری پر لکھے، بعد میں اسی فلسفے کو بنیاد بنا کر "فی الشعر الجاہلی” لکھی، اور پوری عربی شاعری کو اسی فلسفے سے گزرا، جس کے نتیجے میں وہ "فلسفہ انتحال” کوپہنچ گیا، اور "الادب الجاہلی” لکھ ڈالی، آپ کے اس فلسفے پر بہت نقد ورد ہوا، معروف ادیب مصطفی صادق الرافعی، شامی ادیب رفیق العظم ، زکی مبارک وغیرہ نے اس پر رد کیا، ان کے خالف مظاہرے ہوئے، "فی الشعر الجاہلی” پر پابندی لگی، مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہا۔

طہ حسین کے مذکورہ فلسفے اور اراء پر جو ردوقدح ہوا، مصر کے علمی ، ادبی حلقوں میں اس حوالے سے جو ہلچل مچی، اس سلسلے میں احمد الجندی کی کتاب”المعارک الادبیہ”دیکھنے کی چیز ہے۔

آپ شاید مصر میں فکری آزادی کے سرخیل رہے، محمد امین وغیرہ انہیں کے خوشہ چین ہیں، ان کا مجموعہ مضامین "جنایۃ الادب الجاہلی علی الادب العربی”فجر الاسلام اور ضحی الاسلام” میں اس فکر ونظر کے آثار واضح ہیں۔

کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں انہوں نے ادب اور تاریخ ادب پر کلام کیا ہے، اس سلسلے میں ضمنا مصر کے مدارس میں رائج تدریسی طریقہ ہائے ادب اور اس سلسلے میں اصلاحی تجاویز اور اپنا تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔

دوسرے باب میں جاہلی ادب، اور زبان، جاہلی اشعار اور مقامی لہجوں سے بحث کی ہے۔ یہ دونوں ابواب کتا ب کے مدعا کی گویا تمہید ہے۔

تیسرا باب ان کی کتاب کے موضوع بحث کا مرکز ومحور ہے، وہ اس طرز عمل کو "انتحال "سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے اس باب میں اس انتحال کے مختلف اسباب سے بحث کی ہے، ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہبی اغراض، اور جذبات کے تحت اشعار، داستانیں اور منثور کلام گھڑ کر جاہلی شعراءیا جاہلی زبان دانوں کی طرف منسوب کیا گیا ، اس طرز میں عمل میں اگرچہ قومی عصبیت نے بھی اپنا اثر دکھایا ، تاہم زیادہ تر جو شاعری جاہلی کہلاتی ہے، وہ مذہبی اور سیاسی عصبیت کا پیداوار ہے، ہوتا یہ تھا، کہ مثلا اموی دور میں کوئی شاعر حکمران کے اجداد کے متعلق کوئی شعر کہتا ، اور اس کی نسبت کسی زمانہ جاہلیت کے شاعر کی طرف کرتا ، جس ثابت یہ کرنے کی کوشش کی جاتی ، گویا یہ اشعار اس زمانے میں حاکم کے آباو اجداد کے متعلق کہے گئے ہیں۔ یہی طرز عمل مذہبی اور قومی عصبیت اور شاہانہ خوشامد کے زیر اثر بھی ہوتا رہا۔

ذیلی عنوان "القصص وانتحال الشعر” میں کہتے ہیں کہ بعض دفعہ داستانوں اور قصوں کو پر لطف بنانے اور مخاطب کے دل میں ان کی وقعت پیدا کرنے کےلیے اشعار گڑھ کر ، قصہ یا داستان کی مناسبت سے کسی شاعر کی طرف منسوب کرتے ، اب چونکہ وہ قصہ مثلا جاہلیت یا اسلام کے ابتدائی دور کا ہے اور گڑھےہوئے اشعار اس سے مناسبت رکھتے ہیں، اس لیے اس کو "الشعر الجاہلی سمجھا”اس کے علاوہ "الشعوبية وانتحال الشعر (عجمی عصبیت اور الحاق)” اور راویان کلام اور الحاق کا بھی ہے، جس میں مذکورہ طرز عمل بارے عجمی عصبیت کی کارستانیاں اور شعر وادب کے رایوں کے اشعار کی نسبت بارے لاپرواہی کو بیان کیا ہے۔

چوتھے اور پانچویں باب میں مختلف جاہلی شعراء اور ان کی شاعری پر تنقید وتبصرہ ہے، چھٹے باب میں الشعر العربی، اس کے اقسام ، فنون اور اوزان سے بحث ہے، جبکہ ساتواں اور آخری باب جاہلی نثر بارے تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

کتاب اپنے موضوع اور اپنائے گئے اسلوب کے حوالے سے نہایت دلچسپ ہے، تاہم اس میں انہوں نے عربی ادب کے قدیم ذخیرے کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے، اس سے ان کے اکثر معاصر عرب ادباء اتفاق نہیں کرتے، بلکہ اسے مشہور مغربی فلسفی ” ڈیکارٹ ” کے تشکیکانہ فلسفہ بحث کا آزمائشی تطبیقی نتیجہ سمجھتے ہیں۔

کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، مولوی محمد رضا انصاری نے "عربی کا قدیم ادب” کے نام سے اس کا ترجمہ کیا ہے۔انجمن ترقی اردو پاکستان سے کچھ ساڑھے چھ سو صفحات میں چھپی ہے۔

کتاب چوبکہ ایک علمی، ادبی بحث ہے، اس لیے عربی سے مناسبت نہ رکھنے والے حضرات اردوترجمے سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے