حمد ِ خداوند تعالیٰ

سیاست اور سیاستدانوں کو اُن کے حال پر چھوڑ کر میں نے اللہ رب العزّت کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ آپ کی خدمت میں شیخ سعدیؒ کا حمدِ خداوند تعالیٰ پر مضمون پیش کیا تھا، آج اس کا بقیہ حصہ حاضرِ خدمت ہے۔

اُس نے مشرق سے مغرب تک چاند اور سورج کو چلایا اور زمانے کو پانی پر رکھا (یہی مراد ہو سکتی ہے کہ پانی کے بغیر کسی بھی مخلوق کی زندگی برقرار نہیں رہ سکتی، اس لحاظ سے پانی اس کی بہت بڑی نعمت ہے)۔ زمین اپنی کپکپی کے ہاتھوں تنگ آئی ہوئی تھی لہٰذا اس نے اس کے دامن پر پہاڑ کی میخ ٹھونک دی۔ وہ نطفہ کو اپنے کرم سے پری کی سی صورت سے نوازتا ہے (اشارہ ہے ماں کے پیٹ سے بچے کے پیدا ہونے کی طرف)۔ اور کون ہے جس نے یوں پانی پر صورت گری کی ہو؟ (کوئی نہیں کر سکتا)۔

وہ پتھر کے شکم میں لعل و فیروز جیسے قیمتی موتی رکھتا؍ پیدا کرتا اور فیروزی رنگ کی شاخ پر سرخ گلاب اُگاتا ہے۔ بادل سے وہ ایک قطرہ دریا؍ سمندر میں گراتا ہے اور صلب سے پیٹ میں نطفہ لاتا؍ پیدا کرتا ہے۔ پھر اس قطرے کو نہایت چمکتا موتی بنا دیتا ہے (مراد بارش ہے) اور اسی طرح سرو کے درخت کو بلند و بالا کرتا ہے۔ اس ذات پر ایک ذرّے کا بھی علم پوشیدہ نہیں ہے، اس لئے کہ اس کے واسطے کیا ظاہر اور کیا پوشیدہ‘ سب ہی ایک ہے۔ وہ سانپ اور چیونٹی تک کو جو اگرچہ بےدست و پا اور بےزور ہیں، روزی عطا کرتا ہے۔

اسی کے حکم سے عدم سے وجود کا نقش بنا۔ اس کے سوا کون یہ جانتا ہے کہ عدم سے وجود بنایا جائے؟ (صرف اسی کی ذات یہ کر سکتی ہے)۔ دوسری مرتبہ وہ عدم میں چھپا دیتا (یعنی انسان مر جاتا اور قبر میں دفن ہو جاتا ہے) اور اس کے بعد خالق اسے محشر کے صحرا؍ میدان میں لے جاتا ہے۔ انسان اس ذات کے جلال کے ماورا سے آگاہ نہیں ہوا، جبکہ اس کی آنکھ اس ذات کے جمال کی انتہا کو نہیں دیکھ پائی۔ یعنی اس کے جلال و جمال کی کوئی حد نہیں ہے۔ نہ تو اس کی ذات کی بلندی پر خیال و وہم کا پرندہ پہنچ سکتا ہے اور نہ اس کے وصوف کے ذیل میں انسان کے فہم و شعور کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ اس بھنور میں (یعنی اس کے جلال و جمال کی حد کو جاننے میں) ہزاروں کشتیاں کچھ اتنی ڈوب گئیں کہ کنارے پر ان کا ایک تختہ بھی ظاہر نہ ہوا۔ (استعارے میں پہلے والی بات)۔

میں (سعدی) کئی راتیں اس سیر (غور و فکر) میں گم رہا، تاآنکہ دہشت نے میری آستین پکڑ لی کہ اٹھ جا (یعنی تو اس ذات کے جلال و جمال اور صفات کی حدود کو نہیں پا سکتا)۔ اس آقا کا علم (اس کے بارے میں پوری آگاہی) ایک بے حد وسیع سمندر ہے، جس پر تیرا قیاس احاطہ نہیں کر سکتا۔ نہ تو تیرا ادراک (فہم و شعور) اس ذات کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ تیری فکر ہی اس کی صفات کی گہرائی تک پہنچی ہے۔ (نہیں پہنچ سکتی)۔ سحبان کی بلاغت تک تو پہنچا جا سکتا ہے (یعنی تجھ میں بھی اس جیسی بلاغت پیدا ہو سکتی ہے) لیکن اس سُبحان (خداوند پاک) کی حدود تک تیرا پہنچنا، تیرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے کہ خاص انسانوں (اللہ کے خاص بندوں) نے اس راہ میں گھوڑے دوڑائے ہیں لیکن ’’لا احصیٰ‘‘ میں دوڑنے سے رہ گئے ہیں۔ وہی بات کہ اس ذات کی صفات وغیرہ لا انتہا ہیں جن کو پوری طرح جاننا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ گھوڑا ہر جگہ نہیں دوڑایا جا سکتا، کیونکہ اکثر جگہو ں پر ڈھال پھینکنا پڑتی ہے (جو بےبسی کی علامت ہے)۔ اور اگر کوئی سالک راز سے آگاہ ہو گیا ہے تو (قضا و قدر والے) اس پر واپسی کا دروازہ بند کر دیتے ہیں۔

اس بزم میں کسی کو ساغر دیا جاتا ہے یا اسے بیہوشی کی دوا پلائی جاتی ہے۔ (سالک والی بات دوسرے استعارے میں یعنی آگاہ ہونے پر بھی سالک بیان نہیں کر سکتا)۔ کسی نے باز کی آنکھیں سی دی ہیں اور کسی نے باز کی آنکھیں اور پر جلا ڈالے ہیں (یہی مراد ہو سکتی ہے کہ انسان کے فہم و شعور کا باز (جو بلندیوں پر اڑتا ہے، اس ذات کی صفات تک نہیں پہنچ سکتا)۔ کسی نے قارون کے خزانے تک، رسائی اختیار نہ کی اور اگر کی تو پھر وہ باہر نہ نکل سکا (اس کی طرح دریا میں ڈوب گیا)۔

انسانوں میں سے کوئی بھی اس بحر خون کی موجوں میں سے کشتی باہر نہیں نکال سکا۔ (نیا استعارہ بات پہلے والی)۔ اگر تو اس بات کا آرزو مند ہے کہ تو یہ زمین طے کرے تو سب سے پہلے واپس آنے والے گھوڑے کا سراغ؍ کھوج لگا۔ تو دل کے آئینے میں غور و فکر کر، تب آہستہ آہستہ صفائی حاصل کرلے گا (اپنے دل کو پاک رکھ پھر اس کی ذات کے بارے میں سوچ)۔ اس طرح شاید اس کے عشق کی خوشبو، تجھے مست و محو کر دے اور تجھے عہدِ ’’الست‘‘ کا طلبگار بنا دے۔ (خداکی توحید پر تیرا پختہ ایمان ہو جائے)۔ طلب کے پائوں سے تو اس راہ پر چل اور وہاں سے تو رنج و محن کے پروں سے اُڑ جائے گا۔ یقین کے درد سے خیال کے پردے سوائے جلال کے سرا پردہ نہیں رہتے۔

عقل کا گھوڑا اب؍ یا مزید راستہ چلنے والا نہیں ہے، اس لئے کہ حیرت نے اس کی لگام تھام لی ہے کہ رُک جا۔ گویا عقل اس کی ذات و صفات کے بارے میں بیحد سوچ لے پھر بھی نہیں سمجھ سکتی۔اس سمندر میں مردِ داعی (دعا کرنے والا) کے سوا اور کوئی نہیں چلا۔ راستہ وہی بھول گیا یا وہی گم ہوگیا جو راعی (چرواہے) کے پیچھے نہیں چلا۔جو انسان بھی اس راہ سے لوٹے ہیں، وہ بہت چلے لیکن سرگشتہ ہی رہے (بہت غور و فکر کے باوجود نہ جان سکے اور حیرانی کا شکار ہوکر رہ گئے)۔ جس کسی نے پیغمبر (حضور اکرمﷺ) کے خلاف یا برعکس راستہ اختیار کیا وہ ہرگز منزل تک نہ پہنچے گا۔ اے سعدیؒ! تو یہ مت سمجھ کہ حضور کریمؐ کی پیروی کے بغیر راہِ صفا پر چلا جاسکتا ہے۔ (حضور اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل ضروری ہے)۔

قرآن کریم کی سورۂ یونس‘ آیت 6میں ہے کہ اس ذات کریم کے جلوے کائنات کی ہر ہر شے میں موجود ہیں۔ سعدیؒ نے اسی آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

ترجمہ:سبز درختوں کا ہر ہر پتا ایک صاحب بصیرت کیلئے اس کردگار کی معرفت کی ایک ایک کتاب ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے