عہدِ انقلاب کے مٹتے آثار

دو شخصیات ایک ساتھ رخصت ہوئیں۔ ڈاکٹر لال خان اور حفیظ الرحمن احسن۔ ایک نے سرخ انقلاب کے لیے زندگی کو وقف کیے رکھا اور دوسرے نے سبز انقلاب کے لیے۔ دونوں نے خواب دیکھا اور تعبیر کی حسرت لیے زمین میں اتر گئے۔ یہ حضرات اُس نظریاتی کشمکش کی آخری نشانیوں میں سے تھے، جو کئی سال پہلے ہی تاریخی حوالہ بن چکی۔ یہ ان نظریات کے آثار میں تھے جو لگتا ہے کہ تیزی کے ساتھ مٹتے جا رہے ہیں۔ برادرم ذیشان حسین نے پہلی مرتبہ مجھے ڈاکٹر لال خان سے ملوایا۔ وہ ایک نجی ٹی وی کے اُس پروگرام کے پروڈیوسر تھے، میں جس کا میزبان تھا۔ ذیشان ایک پڑھے لکھے، خوش اطوار اور خوش ذوق نوجوان ہیں‘ جو آج بھی سرخ انقلاب کے رومان میں جیتے ہیں۔ ٹی وی چینل کا یہ پروگرام علمی و نظریاتی مباحث کے لیے خاص تھا۔ ذیشان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ علمی دنیا کی ممتاز ترین شخصیات کو تلاش کریں جو اپنے اپنے نظریات کی گہری بصیرت رکھتی ہوں۔ اپنے علمی ذوق کی وجہ سے وہ ڈاکٹر لال خان ہی نہیں، محترم احمد جاوید صاحب سے بھی بہت قریب تھے اور ہیں جو سر تا پا ایک مذہبی شخصیت ہیں۔

ڈاکٹر لال خان اکثر میرے پروگراموں میں شریک ہوتے اور اشتراکی بصیرت کے ساتھ عصری مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے۔ بلا کا حافظہ تھا۔ مارکس اور لینن جیسے اشتراکی قائدین کی طویل تحریریں اور تقریریں انہیں ازبر تھیں۔ روانی سے سناتے۔ اپنے نظریات پر کسی مفاہمت کے قائل نہیں تھے۔ اشتراکیت کے خلاف کوئی بات، کبھی کبھی احساس ہوتا کہ دلیل کو بھی قبول نہ کرتے۔ آخری دم تک اسی رومان میں جیے۔

سوویت یونین کا خاتمہ، ان کے خیال میں اشتراکیت کا خاتمہ نہیں تھا۔ وہ اس تجربے کو اصل اشتراکی نظریات سے الگ کر کے دیکھتے۔ چین میں آنے والی اصلاحات ان کے نزدیک اشتراکی نظریات سے انحراف تھا۔ ان کا تجزیہ تھا کہ چین نے سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنا لیا ہے اور اس کے فطری نتیجے کے طور پر، وہاں ایک طرف غربت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف ایک مراعات یافتہ طبقہ وجود میں آ رہا ہے۔ وہ ان اصلاحات کے شدید ناقد رہے۔ ”دنیا‘‘ میں لکھے گئے اپنے کالموں میں بھی انہوں نے بارہا اپنا یہ نقطہ نظر صراحت کے ساتھ بیان کیا۔

اشتراکی تصورِ تاریخ کے تحت انہوں نے پاکستان کی تاریخ بھی لکھی۔ وہ 1969ء کے ‘سماجی انقلاب‘ کو ملک کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ سمجھتے تھے جس کے نتیجے میں سیاست نے بھی ایک نیا رخ اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کا قیام بھی اسی سماجی تبدیلی کا ایک مظہر تھا۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی بھی ان کے رومان میں شامل تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے جن کی یہ خواہش رہی کہ پیپلز پارٹی بائیں بازو کے نظریات کی علم بردار بن کر کھڑی رہے۔ ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔

حفیظ الرحمن احسن اس نظریاتی کشمکش میں، لکیر کے دوسری طرف کھڑے تھے۔ وہ جماعت اسلامی میں تھے۔ جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی فکری قیادت میں اشتراکی خیالات کے خلاف جو معرکہ لڑا، وہ دنیا کی نظری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ جماعت اس معرکے میں سرخرو رہی۔ اشتراکیت کے خلاف جماعت کی جدوجہد ہمہ جہتی تھی۔ اس کا ایک محاذ ادب بھی تھا۔

اشتراکیت نے ادب ہی کے راستے بر صغیر کے سماج میں راستہ نکالا۔ ترقی پسند تحریک اس کا ہراول دستہ رہی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اشتراکیت ادب کے میدان میں فاتح ٹھہری۔ نظم و نثر میں جیسے لوگ اس تحریک نے پیدا کیے، بر صغیر کی ادبی تاریخ میں ان کی مثال تلاش کر نا مشکل ہے۔ علامہ اقبال اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے تھے لیکن وہ اس معرکہ آرائی سے پہلے دنیا سے اٹھ چکے تھے۔ ترقی پسند تحریک نے فیض صاحب کی شہادت کے مطابق اقبال کو منہدم کرنے کی مہم شروع کی جس نے خود فیض صاحب کو اس تحریک سے دور کر دیا۔ جو اس مہم کا حصہ نہ تھے، انہوں نے کوشش کی کہ اقبال کو بھی مارکسسٹ بنا کر پیش کریں۔

اشتراکیت کے خلاف جماعت اسلامی، جو ہمہ جہتی جنگ لڑ رہی تھے، ادب کے محاذ پر پسپائی کا شکار تھی۔ ایک صاحبِ طرز انشا پرداز ہونے کے باوجود، مولانا مودودی کی شہرت ایک عالمِ دین اور سیاست دان کی تھی۔ جماعت اسلامی نے جب ادبی محاذ کو گرم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی قیادت نعیم صدیقی مرحوم کو سونپی گئی۔ انہوں نے ادبی لشکریوں کی جو صف مرتب کی، حفیظ الرحمن احسن ان میں نمایاں تر تھے۔ نعیم صدیقی صاحب کے رسالے ”سیارہ‘‘ کے وہ مدیر رہے اور ادب کے محاذ پر پوری جاں فشانی کے ساتھ نظریاتی جنگ لڑی۔

یہ اتفاق ہے کہ ان کا نظریاتی خواب بھی اسی انجام سے دوچار ہوا جس سے ڈاکٹر لال خان کا خواب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پیپلز پارٹی سے مایوس ہوئے اور اسے اشتراکی خیالات سے منحرف قرار دیا۔ اسی طرح احسن صاحب جماعت اسلامی سے مایوس ہوئے اور اسے مو لانا مودودی کے افکار سے منحرف سمجھا۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے جماعت سے الگ ہو کر ‘تحریک اسلامی‘ کے نام سے ایک الگ جماعت بنائی جو ان کے خیال میں مولانا مودودی کے افکار کی سچی پیروکار اور اسلامی انقلاب کی داعی تھی۔

پاکستان میں نظریاتی لوگ اکثر ایک جیسے انجام سے دوچار ہوئے۔ بائیں بازو کے جو لوگ پیپلز پارٹی سے مایوس ہوئے اور انہوں نے اپنے تئیں نئی ‘نظریاتی‘ پیپلز پارٹی بنانے کی کوشش کی، وہ عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام ہوئے۔ اس ضمن میں حنیف رامے سے لے کر معراج محمد خان تک، کئی افراد کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح جنہوں نے جماعت اسلامی سے الگ ہو کر‘ نظریاتی جماعت اسلامی بنانا چاہی، ان کا انجام بھی یہی ہوا۔ ان میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے لے کر، نعیم صدیقی جیسے کئی حضرات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

اشتراکی انقلاب اور اسلامی انقلاب کے علم بردار کیوں ناکام ہوئے؟ یہ سوال دنیا میں تو زیر بحث آیا مگر ہمارے ہاں اس پر کوئی با معنی علمی مشق نہیں ہو سکی۔ نظریاتی لوگوں کو اپنی سیاسی بقا کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں میں پناہ لینا پڑی۔ قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور صاحب جیسے ‘اشتراکی‘ جانتے ہیں کہ انہیں سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو پیپلز پارٹی ہی میں رہنا ہے۔ معراج محمد خان تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل بن گئے تھے۔ اسی طرح احسن اقبال، صدیق الفاروق اور جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ کا سہارا تلاش کر لیا۔

میری طالب علمانہ رائے میں یہ نظریاتی کشمکش اب قصہ پارینہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے عملی میدان میں اشتراکیت کو فیصلہ کن شکست دے دی۔ اسلامی انقلاب والے تو دنیا کو کوئی متبادل پیش ہی نہیں کر سکے۔ ایران سے سوڈان اور افغانستان سے ترکی تک، انہیں اقتدار ملا لیکن وہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی توڑ نہ دے سکے۔ انہوں نے سرمایہ داری کو اپنا لیا پھر پاپائیت کو اختیارکر لیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ان پامال راستوں پر چلنے والوں کی کوئی منزل نہیں۔

زندگی، تاہم صرف نظریات کا نہیں، کردار کا بھی نام ہے۔ لال خان اورحفیظ الرحمن احسن جیسے لوگ اپنے کردار کی اس قوت کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے کہ انہوں نے تادمِ آخر اپنے نظریات سے رشتہ نبھایا۔ انہوں نے کسی شخصی مفاد کو اپنی منزل نہیں بنایا اور یوں ایک برتر اخلاقی جگہ پر کھڑے رہے۔ ایسے لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں جو دوسروں کی بہتری کیلئے خواب دیکھتے ہیں۔ یہ زمین کا نمک ہیں۔ عالمِ انسانیت کو آج جو المیہ درپیش ہے، وہ علم کا کم اور اخلاق کا زیادہ ہے۔ معاشروں کو زندہ رہنے کیلئے علمی قوت کے ساتھ اخلاقی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارا المیہ علمی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ جب ہماری صفوں سے کوئی صاحبِ علم اٹھتا ہے تو اس کا متبادل تلاش کرنے کے لیے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتے ہیں۔ اکثر یہ نگاہ ناکام لوٹ آتی ہے۔ یہی معاملہ صاحبانِ کردار کا بھی ہے۔ ڈاکٹر لال خان جیسے لوگ بائیں طرف کم ہوتے جا رہے ہیں اور حفیظ الرحمن احسن جیسے لوگ دائیں طرف۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں اپنی مغفرت سے نوازے اور دنیا میں وہ معاشرہ وجود میں آئے جس کا دونوں نے خواب دیکھا تھا۔ دونوں کا خواب اپنے نتیجے کے اعتبار سے ایک تھا: ایک خوش حال معاشرہ جس میں کوئی محروم نہ ہو۔ جس میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے