سوشل میڈیا: سماجی تنظیموں کا حکومتی مشاورت کا بائیکاٹ

پاکستان کی حکومت کی جانب سے نئے منظور شدہ سوشل میڈیا قواعد پر مشاورت کے لیے کمیٹی کے قیام کے بعد پاکستان کی ایک سو سے زائد سماجی، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیوں اور شخصیات نے ان قواعد کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا کے نئے قواعد کو واپس نہ لیا گیا تو وہ کسی قسم کی مشاورت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

دوسری طرف وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکرٹری شعیب صدیقی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال قواعد پر عمل درآمد نہیں ہو رہا کیونکہ مشاورت کے لیے قائم کی گئی کمیٹی دو ماہ تک تمام سوشل میڈیا کمپنیوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد رپورٹ بنائے گی جس کے بعد معاملات آگے بڑھائے جائیں گے۔

گذشتہ ماہ حکومت نے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے قواعد کی منظوری دی تھی جس کے تحت فیس بک، ٹوئٹر، گوگل اور دیگر کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ تین ماہ کے اندر پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں اور پاکستانی صارفین کے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حکومتی ہدایات پر عمل درآمد کریں۔
حکومت نے کمپنیوں کو صارفین کا مطلوبہ ڈیٹا حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا بھی کہا تھا۔

ان قواعد پر سوشل میڈیا کمپنوں نے ایک مشترکہ بیان میں سخت تنقید کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی خدمات ختم کرنے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور حکومت کی جانب سے 28 فروری کو چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کا کام تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے ان قواعد کا دوبارہ جائزہ لینا ہے۔

تاہم ایک سو سے زائد تںطمیوں اور شخصیات نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے قواعد واپس لیے بغیر چند روز قبل مشاورت کے لیے کمیٹی قائم کی گئی جو کہ بظاہر صرف تنقید کو روکنے کا حربہ لگتا ہے اور کابینہ سے منظور شدہ قواعد وہیں کے وہیں ہیں۔

بیان پر پاکستان بار کونسل، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، عوامی ورکرز پارٹی، بولو بھی ، ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن، ارادہ، اور پاکستان پریس فاونڈیشن کے علاوہ نامور صحافیوں، سابق سینیٹرز اور قانون دانوں کے دستخط ہیں۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ان قواعد کی قانونی حثیت پر عوام کو ابہام میں رکھ رہی ہے اور جب تک یہ قواعد موجود ہیں مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بیان میں فیس بک، ٹوئٹر، گوگل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت کے ساتھ اپنی مشاورت کی ’ٹرمز آف انگیجمنٹ‘ کو بھی عوام کے ساتھ شیئر کریں کیونکہ اکثر کمپنیوں اور حکومتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں اصل نقصان عوام کا ہوتا ہے۔

بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سائبر کرائم کے قانون کی شق 37 کو ختم کیا جائے کیونکہ اسی شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا قانون بنایا گیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی بانی فریحہ عزیز نے کہا کہ کابینہ سے منظور شدہ قواعد وزیراعظم کے نوٹس لینے سے ختم نہیں ہو جاتے۔

’یہ قواعد ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور ان کی بنیاد پر حکومت چاہے تو کسی کے خلاف کبھی بھی کاروائی کر سکتی ہے۔ اس لیے مشاورت کے لیے کمیٹی کے قیام کے باوجود عوام کے حقوق بدستور خطرے میں ہیں۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت ان قواعد کو فوری طور پر معطل کرے۔‘

وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے سیکرٹری شعیب صدیقی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں اور سول سوسائٹی کے اعتراض کے بعد حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی پہلے ہی بنا دی گئی ہے جو دو ماہ میں کمپنیوں اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے ان قواعد کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت کیا یہ قواعد معطل ہیں یا پھر ان پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے تو سیکرٹری آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ’ان قواعد پر عمل درآمد کے لیے کچھ بنیادی اقدامات ضروری ہیں اور یہ اقدامات ابھی نہیں اُٹھائے گئے اور ابھی حکومت مشاورتی کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کر رہی ہے۔‘
مشاروتی کمیٹی کی سربراہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چئیرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) عامر عظیم کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے