گلگت بلتستان کرونا وائرس کی زد میں، پاک چین سرحد کو بھی بند رکھنے کا فیصلہ

چائینہ کے صوبے ووہان سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کرونا وائرس کی اصلیت اور پھیلاؤ کے محرکات ابھی تک دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں اور سائنسی دنیا اس کے محرکات اور تدارک کے لئے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ چینی صوبہ ووہان سے پھیلنے والا وائرس عالمی ممالک کی کھینچاتانی کے نتیجے میں کوئی حیاتیاتی جنگ کا حصہ ہے، چینی لیبارٹری سے کھسک کر نکلا ہوا وائرس ہے یا جانوروں کے استعمال کی وجہ سے پھیلا ہے اس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔تاہم اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنے خوف و دہشت کے حصار میں لیا ہوا ہے۔

کرونا وائرس کا آغاز چائینہ سے ہوا تھا اور اب تک اس وائرس کے زد میں آنے والے افراد کی تعداد 94 ہزار سے زائد ہے جن میں 3220 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ 51203مریض اب تک اس مرض سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ایک عالمی جریدے کے مطابق اب تک 82ممالک اس وائرس کی زد میں ہیں جن میں سب سے زیادہ کیسز چائینہ میں پیش آئے ہیں جن کی کل تعداد 80ہزار سے کچھ زیادہ ہے جبکہ چائینہ میں ہونے والے اموات کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے جو کہ مجموعی اموات کے قریب ترین ہے، اب تک چائینہ میں 50 ہزار افراد اس مرض سے بحفاظت نکل آئے ہیں۔ جنوبی کوریا اس فہرست میں دوسرے نمبر جبکہ ایران اس فہرست میں تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔ جنوبی کوریا میں اس مرض سے 34جبکہ ایران میں اس مرض سے 92 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سرفہرست کے تینوں ممالک میں اس وقت ایران میں شرح اموات اور نئے کیسز کا اندراج بہت زیادہ ہے۔

پاکستان اور چائینہ کے مثالی تعلقات ہونے کی وجہ سے اس وائرس کا پہلا خدشہ یہی تھا کہ یہ پاکستان کو بہت نقصان دے گا۔ دوسری جانب چینی سائنسدان جس جانور تک اپنی تحقیق پہنچائی ہے اس کی ترسیل بھی سب سے زیادہ پاکستان سے ہوئی ہے، ماحولیاتی صحافت سے وابستہ خاتون صحافی شبینہ فراز کے متعلق پینگولن نامی یہ جانور گلگت بلتستان میں بھی پایا جاتا ہے جس کے کھردرے جسم اور اس کے کھول کو چائینہ میں ادویات سازی کے لئے استعمال کیاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ جانور بڑی تعداد میں سمگل ہوکر چائینہ پہنچ جاتا ہے۔

گلگت بلتستان چائینہ کا قریب ترین ہمسایہ ہے۔ پاکستان اور چائینہ کی سرحد خنجراب بارڈر کے زریعے ملتی ہے جو کہ سطح سمندر سے 15ہزار4سو فٹ بلند ہے۔ یہ بارڈر ’بارڈر پروٹوکول معاہدے‘ کے تحت یکم اپریل کو کھول دیا جاتا ہے کیونکہ نومبر سے اپریل تک برفباری کی وجہ سے یہ بارڈر ناقابل استعمال ہوتا ہے۔ رواں برس نومبر میں سرحد بند ہونے کے دوران پاکستانی تاجروں کا کروڑوں روپے مالیت کا مال سرحد پار پھنسا رہا اور حکومتی سطح پر دو مرتبہ سرحد کو موسمی نامساعد حالات کے باوجود کھولنے پر اتفاق پایا گیا لیکن کرونا وائرس کے پھیلنے کے خوف سے فیصلہ واپس لیا گیا۔

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایران میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے جانے والے اور مقدسات کی زیارت کے لئے جانے والے زائرین اپنے ساتھ ایران سے کرونا وائرس لیکر آئیں گے۔ سالانہ زیارت کے لئے جانے والے افراد میں زیادہ تعداد اکثر گلگت بلتستان کی ہوتی ہے۔ ایران سے وطن واپسی پر کرونا وائرس پائے جانے اور ان کی تصدیق کے بعد جیسے جنگل میں آگ لگ گئی۔ اس وقت پاکستان میں کل کرونا وائرس کے پانچ کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں تین کیسز کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ان تین کیسز میں دو مریض اسلام آباد میں جبکہ ایک 45 سالہ خاتون کو گلگت میں اس مرض کی تشخیص ہوگئی ہے۔ ملک کے کل پانچ میں سے تین کیسز کاتعلق جی بی سے ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان اس مہلک بیماری کا مرکز بنا ہوا ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس کی لہر پیدا ہوئی ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے قائم کردہ سٹیرنگ کمیٹی، محکمہ صحت اور انتظامیہ کے زمہ داران نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کردی کہ گلگت بلتستان میں 45 سالہ خاتون میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ جی بی حکومت نے کل 9نمونے ٹیسٹ کے لئے بھجوادئے تھے جن میں سے 8 نمونوں میں کسی قسم کے اثرات نہیں پائے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت نے بسین ہسپتال گلگت اور محمد آباد ہسپتال دنیور میں ایک وارڈ کو ’آئیسولیشن وارڈ‘ قرار دیکر مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کو وہاں منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ مذکورہ مریضوں کے علاج معالجے کے لئے ضروری کٹ، یونیفارم، ادویات کے لئے حکومت نے بجٹ منظور کردیا ہے جس کی خریداری کی جارہی ہے۔

گلگت بلتستان حکومت نے کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر بھی اپنانے کا اعلان کرلیا ہے جن میں سب سے اہم قدم پاک چین سرحد کو نہ کھولنے کا فیصلہ ہے۔ ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کافیصلہ کرلیا اور متعلقہ امتحانی بورڈز کے ساتھ روابط کے زریعے ان دنوں ہونے والے امتحانات کو بھی ملتوی کرادیا ہے۔ گلگت بلتستان کے داخلی راستوں میں سکریننگ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ راولپنڈی اسلام آباد سمیت دیگر شہروں سے جی بی سفر کرنے والے مسافروں کے حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں کہ بین الاقوامی سفر کرکے آنے والے مسافروں کا ڈیٹا الگ سے جمع کیا جائے۔ گلگت اور سکردو ائیرپورٹ میں بھی مشتبہ افراد بالخصوص زائرین کے چیک اپ کے لئے سکریننگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔کرونا وائرس کے حوالے سے بنائی گئی سٹیئرنگ کمیٹی کے مطابق صورتحال پر غور و خوض جاری ہے بہتری اور بدتری کی صورت میں فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

پاک چین سرحد کو نہ کھولنے کا فیصلہ بھی ملکی سطح کا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ملکی سطح پر یہ فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے کہ ایران سے متصل سرحد کو بند کیا جائے۔ اسی طرح متاثرہ ممالک سے سفر کرکے آنے والے افراد کی مکمل نگرانی کی جارہی ہے۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک سے سفر کرکے آنے والے مسافروں میں علامات ظاہر ہونے کی صورت میں فوری طور پر ’آئیسولیشن وارڈ‘ منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ احتیاطی تدابیر میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ ایسے افراد سے فی الحال میل جول کم کیا جائے، ہاتھ نہ ملایا جائے تاکہ وائرس کے پھیلنے کے خطرات اور خدشات کم سے کم ہوں۔

کرونا وائرس کی علامات عام نزلہ کی طرح کے ہی بتائے جارہے ہیں جن میں بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دشواری وغیرہ اس کے ابتدائی علامات میں شامل ہیں۔ اس میں شدت کی صورت میں نمونیہ بھی واقع ہوسکتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اس وائرس کے ظاہر ہونے میں 14دن لگ سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف مقامات پر لگے سکریننگ سہولت سے گزرنے والے متعدد افراد میں بعد میں یہ اثرات ظاہر ہوئی ہیں۔

یہ وائرس متاثرہ افراد سے ہاتھ ملانے، یا گلے ملنے کی صورت میں منتقل ہوتا ہے اور بذریعہ ہوا سانس کے زریعے بھی منتقل ہوسکتا ہے جس کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ میٹر ہے،یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں اور مشتبہ افراد کے حوالے سے سخت حفاظتی اقدامات کی تجویز دی گئی ہے۔اس مرض سے بچنے کے لئے باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال کرنا، چھینکتے وقت ماسک یا رومال کااستعمال کرنا ہے۔

کرونا وائرس کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یہ جان لیوا مرض نہیں ہے بلکہ اس سے بچنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار سے واضح ہوا ہے کہ ا س میں مرنے کی شرح صرف تین فیصد ہے اور اس کی ویکسین تیار کرنے کے حوالے سے عالمی سطح پر اقدامات جاری ہیں، البتہ اب تک کا بہترین علاج مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا ہے۔

کرونا وائرس کے مقابلے میں ماضی قریب کے بیماریوں یا وبا کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مہلک یا خطرناک نہیں ہے۔ پاکستان میں چند برس قبل پھیلے برڈ فلو وائرس میں شرح اموات 40 فیصدتھی جبکہ مرس کرونا اور ایبولاوائرس نامی وبا میں اموات کی شرح بالترتیب 35اور 40 فیصد پائی گئی تھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے