مولانا سندھی اور مولانا آزاد ، ایک غیر متوازن رویے کی نشاندہی

آج مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم ، جب کہ چند دن قبل مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کا یوم وفات تھا، اللہ تعالی ان دونوں کی خدمات قبول فرمائے، درجات بلند فرمائے، اپنی شایان شان اجر عمل نصیب فرمائے۔

مذکورہ دونوں حضرات یقینا نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ عالم اسلام کے عظیم راہنما اور نابغہ روزگار شخصیات تھیں، ان کی قلمی، لسانی دینی خدمات اتنی ہیں، کہ مسلمانان پاک وہند برسوں ان کے ممنون رہیں گے۔

اس لیے ان کے یوم وفات پر ان کو خراج تحسین پیش کرنا نہایت قابل تحسین عمل ہے، جو ایک پہلو سے "تذکیر بآلاء اللہ” میں آتا ہے۔ کہ ایسی عظیم ہستیاں جن کے علم وفکر نے انسانی فکر کو سالہاسال سیراب کیا، ان کو یاد رکھنا ، اللہ تعالی کی نعمت کی قدردانی ہے۔

لیکن ایک بات جو مجھے عرصے سے کھٹک رہی ہے، جس کا اظہار میں دیانتا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ ہمارے طبقے میں مولانا آزاد اور مولانا سندھی کو جس انداز میں ہیروز بنا کر پروموٹ کیا جارہا ہے، نوجوانوں کی فکری تشنگی کا توڑ جس طریقے سے ان کے ساتھ جوڑا جارہا ہے، وہ بجائے خود ایک خطرناک عمل ہے۔

مکرر عرض ہے کہ ان دونوں کی علمیت، شخصیت، جہد وعمل سے بھرپور زندگی سے انکار کوئی نامعقول ہی کرسکتا ہے ، مگر جس انداز میں ان دونوں کو فکر وحریت کا استعارہ بنا کر پیش کیا جاتاہے، یا یوں دکھایا جارہا ہے گویاہندوستان کی علمی وفکری تاریخ ان دونوں کے سوا بانجھ ہے ، ایک غیر متوازن رویہ ہے ، جو ہمارے ہاں چل پڑا ہے۔

کیا ان شخصیات کی فکر میں نوجوانوں کی فکری غذا نہیں ہے جن سے یہ دونوں حضرات مستفید ہوئے، جن چراغوں سے انہوں نے روشنی حاصل کی ، وہ تو چھوڑدیں، ان کی جگہ ان کو منصب اعتماد پر بٹھایا جائے؟!!!

یاد رہے!!! ہمیں اپنے اکابر سے فکروعمل میں اعتدال کا درس ملا ہے، میں معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں حضرات اس حوالے ہمارے آئیڈیل نہیں بن سکتے ہیں ، فکر وعمل میں جامعیت ہی نہیں ، اعتدال بھی مطلوب ہے، میں یہاں ان دونوں حضرات کی فکری بے اعتدالیوں کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھتا ہوں، نہ خود کو اس کا حق دیتا ہوں، لیکن یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن اکابر کے ہاں ہمیں فکر وعمل کے ساتھ توازن بھی نمایاں نظر آتا ہے ، وہی ہمارے ائیڈیل، نمونہ عمل اور ان کا کردار وگفتار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی شخصیت ہمارے اکابر میں ایسی تھی، کہ ہمارے سیاسی، علمی ، فکری، دعوتی، جہادی اور تزکیہ وسلوک کے میدان کے صف اول کے اکابر ان کے خوشہ چین اور ان کے چشمہ فیض کے فیض یافتہ ہیں، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ "ملفوظات” میں دو تین جگہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کو شیخ الہند کہہ کر انصاف نہیں کیا، وہ شیخ الہند نہیں، شیخ العرب والعجم تھے۔

ہمارے استاد حضرت مولانا عبد الحلیم چشتی صاحب دامت برکاتہم کو شیخ الاسلام مولنا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ عشق کا تعلق ہے، مجھے یاد ہے ان کے سامنے کبھی حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات سناتے ہوئے جب یہ ملفوظ پڑھتا تو استاد جی جھومنے لگتے اور کہتے: حضرت تھانوی نے صحیح فرمایا ہے۔

معذرت کے ساتھ مجھے اس بھی اتفاق نہیں ہے کہ مولانا سندھی حضرت شیخ الہند کے ترجمان تھے، وہ بلاشبہ شیخ الہند کے ایک مخلص شاگرد اور ان کے جان نثار سپاہی تھے، مگر ان کے حکم پر جب دورہ افغانستان سے واپسی تشریف لائے اور پھر حجاز مقدس تشریف لےگئے تو اس دوران حالات کے جبر نے آپ کو دوسرے رخ پر سوچنے پر مجبور کردیا، چنانچہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے افادات کو دیکھنے لگا اور ان کی روشنی میں جہد وعمل اور دینی تحریک کے نئے زاویے سوچنا اور انہیں ترتیب دینے لگا، ظاہر بات ان کے سامنے اپنے عظیم استاد حضرت شیخ الہند کے جدوجہد بطور نمونہ موجود تھی، ان دونوں کو ملا کر جب آپ نے فکر وعمل کے نئے زایوں سے سوچنا شروع کیا تو اس دوران کچھ ایسے افکار بھی وجود میں آئے ، جن کا شیخ الہندسے سوائے نسبت کے کوئی تعلق نہ تھا۔

اسی لیے مولانا سعید احمد اکبرآبادی صاحب "مولانا سندھی اور ان کے سیاسی ناقد” میں لکھتے ہیں: شروع میں ہی اس کا اظہار کردینا بھی ضروری ہے کہ ہم خود مولانا (سندھی) مرحوم کے سب خیالات اور تمام افکار وآراء سے من وعن متفق نہیں۔

مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "دار العلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن” میں بھی مولانا سندھی کے کچھ ایسے افکار کی نشاندھی کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی حضرات نے اس کے متعلق لکھا ہے، جن تک بآسانی رسائی ہوسکتی ہے۔

اس لیے مناسب ہے کہ اکابر کے سیاسی منہج ومزاج اور افکار کو سمجھنا ہے تو شاہ ولی اللہ اور شیخ الہند کو بلاواسطہ پڑھا جائے، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی اکثر کتابیں تو ترجمہ بھی ہوچکیں، شیخ الہند کے سیاسی افکار کے حوالے سے ان کے سیاسی جانشین ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی خود نوشت سوانح "نقش حیات” خاص کر اس کی دوسری جلد میں شیخ الہند کی سیاسی تحریک کے کئی ان گوشوں سے نقاب کشائی گئی ہے جو عرصے تک پردہ خفا میں تھے، ان کی دوسری کتاب "اسیر مالٹا” میں بھی اپنے استاد کے سیاسی تحریک پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، مولانا نجم الدین اصلاحی کی مرتب کردہ "مکتوبات شیخ الاسلام ” بھی اس حوالے سے خاصے کی چیز ہے۔ کراچی کے ایک بزرگ گ، صاحب علم شخصیت ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری صاحب نے بھی شیخ الہند اور ان کے سیاسی تلامذہ کے حوالے سے نہایت وقیع کام کیا ہے۔ چنانچہ "شیخ الہند ایک سیاسی مطالعہ” "شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ایک سیاسی مطالعہ” سحبان الہند مولانا سعید احمد دہلوی ایک سیاسی مطالعہ” ” مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ” اور ” شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری ” کے نام سے سات ضخیم جلدوں میں ایک وقیع سیاسی نامہ سمیت کئی اہم کتابیں لکھی ہے۔
ویسے بھی ہندوستان میں جس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے