کورونا وائرس کا کوئی دین ایمان نہیں

اب تک دنیا میں صرف ایک ملک ایسا ہے جس نے کورونا وائرس کا دانشمندی سے مقابلہ کیا ہے، یہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے اِس خطرے کا ادراک کیا اور اپنے مرکزی کمانڈ سینٹر برائے وبائی امراض کو اُس وقت متحرک کیا جب ڈبلیو ایچ او نے اپنی ہنگامی کمیٹی کی پہلی میٹنگ بھی نہیں بلائی تھی اور چین نے ووہان شہر کو بند نہیں کیا تھا حالانکہ اُس وقت اِس ملک میں کورونا وائرس کا ایک کیس بھی دریافت نہیں ہوا تھا، اِس ملک کا صدر یونیورسٹی کا سابقہ پروفیسر ہے جبکہ نائب صدر پبلک ہیلتھ کا ماہر۔ چین، جہاں اب تک کورونا کے 81ہزار سے زائد تصدیق شدہ کیس منظر عام پر آ چکے ہیں، اِس ملک سے صرف 81میل کے فاصلے پر ہے، یہاں آبادی ڈھائی کروڑ سے کم ہے لیکن یہاں صرف پچاس کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک کی موت ہوئی ہے جبکہ 40فیصد مریض صحت یاب ہوکر گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ اگر چین کی آبادی اور کورونا مریضوں کا تناسب دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اِس ملک کے مقابلے میں چین میں کورونا مریضوں کی فی کس شرح 25گنا زیادہ ہے حالانکہ چین نے بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے قابلِ ستائش اور بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ اِس چھوٹے سے ملک کا نام ہے تائیوان!

ہمیں جب کوئی بیماری ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہم اِس کا انکار کرتے ہیں کہ جھوٹ ہی ہو، قوموں کا مزاج بھی مختلف نہیں، کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے سے متعلق سب سے پہلے اِس کا انکار کیا جاتا ہے، تائیوان سے یہ غلطی 2003میں اُس وقت ہوئی جب سارس وائرس پھیلا مگر تائیوان نے دوبارہ یہ غلطی نہیں دہرائی اور سب سے پہلے ایکشن لیا، اپنے شہریوں کے ٹیسٹ کیے، انہیں وائرس سے بچاؤ کی تراکیب بتائیں اور متاثرین کو شروع سے ہی قرنطینہ میں رکھ کر اسے پھیلنے سے روک لیا جبکہ ہم ابھی تک انکار کے موڈ میں بیٹھے ہیں، آج جب یہ وائرس 135ملکوں میں پہنچ چکا ہے، 1لاکھ 45ہزار 816کیس سامنے آ چکے ہیں اور 5ہزار 438اموات ہو گئی ہیں تو ہم نے پہلا حکم نامہ جاری کیا ہے اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی اور تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں مگر جو اصل کرنے کا کام ہے وہ اب تک نہیں کیا۔ ہم اب بھی اسی خوش فہمی میں ہیں کہ ملک میں صرف 28کورونا کے مریض ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ایک کی بھی موت نہیں ہوئی مگر یہ اعداد و شمار درست نہیں کیونکہ ہم نے اپنی آبادی کے کسی بھی حصے کا ٹیسٹ کروانا شروع نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ اصل میں کتنے لوگ اِس سے متاثر ہیں، عوامی سطح پر بھی اسے خطرہ نہیں سمجھا جا رہا حالانکہ وائرس ہمارے ملک میں موجود ہے، فقط ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ آج کی تاریخ میں بھی ہمارے ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر کسی قسم کی اسکریننگ کا کوئی انتظام نہیں، شہروں میں کسی نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانا ہو تو اس کا کوئی سستا انتظام نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ کے مطابق اس وائرس کی علامات میں بخار، تھکاوٹ اور خشک کھانسی شامل ہیں، اگر یہ بگڑ جائے تو سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، اِس اسٹیج پر مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں اڑھائی تین ہزار سے زیادہ وینٹی لیٹر نہیں ہیں۔ سو کچھ کام فوری کرنے کے ہیں، وینٹی لیٹرز درآمد کیے جائیں، سرحدوں پر ہر قسم کی نقل و حرکت کرنے والوں کی اسکریننگ کی جائے، عوام کے لیے کورونا ٹیسٹ ویسے ہی سہل بنایا جائے جیسے ڈینگی کے لیے بنایا گیا تھا اور ممکن ہو تو ہر شہری کا ٹیسٹ کیا جائے۔ سرکاری ملازموں کو پابند کرکے شروعات کی جا سکتی ہے، کورونا کٹس عوام میں تقسیم کی جائیں جن میں سینی ٹائزر، صابن، ٹشو پیپر اور ہدایت نامہ موجود ہو جس میں کورونا کی احتیاطی تدابیر لکھی ہوں۔ میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی جائے اور لوگوں کو شعور دیا جائے کہ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، ہاتھ دھونے کے لیے صابن کا استعمال کریں کہ اس سے وائرس مر جاتا ہے، ٹشو پیپر میں کھانسیں اور اسے فوراً تلف کر دیں، اپنی قوتِ مدافعت میں اضافہ کریں، وٹامن سی کا استعمال کریں، بار بار پانی پینے سے بھی وائرس نہیں مرتا، ویسے پانی پینا اچھی بات ہے، لہسن کا کورونا وائرس مارنے سے دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں، ایسی کوئی جادوئی معدنیات نہیں جو اِس وائرس کا توڑ کر سکیں اور یہ بات بھی اب تک یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ گرمیوں میں یہ وائرس از خود ختم ہو جائے گا، ممکن ہے ایسا ہو جائے، ممکن ہے نہ ہو۔ صرف ڈبلیو ایچ او، یونیسف یا ایسی ہی مصدقہ ویب سائٹس سے استفادہ کریں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا کی مختلف ’خانقاہوں‘ میں ’خدا کے نیک بندے‘ کورونا کی ویکسین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ خانقاہیں سائنس کی لیبارٹریوں کی شکل میں آباد ہیں جن میں سفید رنگ کا چوغہ پہنے صوفی دن رات کی پروا کیے بغیر خدا کی عطا کی ہوئی عقل سے وائرس کا توڑ تلاش کرنے میں لگے ہیں تاکہ انسانیت کو اِس سے بچایا جا سکے مگر اِس میں وقت لگے گا، شاید اپریل میں یہ انسانوں پر آزمائی جا سکے مگر آزمائش کامیاب بھی ہوئی تو یہ ویکسین سال کے اختتام سے پہلے بازار میں نہیں آ سکے گی (Gileadسائنسز نامی تحقیقی کمپنی اب تک کی دوڑ میں کافی آگے ہے) تب تک کورونا سے احتیاط اور دعا کرکے ہی بچا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کے نزدیک یہ وائرس خدا کا عذاب ہے تو کوئی سائنس کو طعنہ دے کر خوش ہو رہا ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ اِس وائرس کا کوئی دین ایمان نہیں، اِس کے کوئی سیاسی نظریات نہیں اور یہ کسی سرحد کو نہیں مانتا۔ آپ ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں یا بتوں کو پوجتے ہیں، پوپ ہیں یا وزیر، ایرانی ہیں یا سعودی، جوا خانہ چلاتے ہیں یا کلیسا میں سروس کرتے ہیں، اگر آپ نے یا آپ کی حکومت نے احتیاط نہ کی تو یہ وائرس آپ کا لحاظ نہیں کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے