کورونا : عذاب ہے یا موقع

قدرت ایک منفرد نظام کے تحت چلتی ہے۔ کروڑوں، اربوں سال پرانا یہ نظام تمام تر سائنسی جدیدیت سے زیادہ جدید اور ٹیکنیکل ہے لیکن سادہ ترین اصول پر قائم ہے۔ جس کو میں آخر میں بیان کروں گی۔

انسانوں نے پچھلی ایک صدی میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں۔ ہم نا صرف ہر شعبے میں اگہی کے اعتبار سے اپنی انتہا پر ہیں بلکہ کئی نئے شعبے بھی متعارف کروا چکے ہیں۔ علم کا وہ گھمنڈ کہ فطرت سے چھیڑ خانیاں شروع کردیں۔ اپنے وسائل کا بے جا اور بے دریغ استعمال کرتے چلے گئے۔ جہاں نئی نئی ایجادات انسانوں کی بھلائی کا باعث بنیں وہیں ہماری نا سمجھی اس کرہ ارض کو نقصان بھی پہنچاتی رہی۔

شاید میں آپ کو جذباتی لگوں لیکن نا جانے کتنے انسانوں کا خون اس زمین کو ہم نے پلایا۔ مذہب, سیاست اور نجانے کس کس بہانے ایک دوسرے کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دیتے چلے گئے۔ ان سب کی آہیں اسی فضا میں جذب ہوئی ہوں گی۔

اپنی اذیت پسندی کا دائرہ انسانوں سے بڑھا کر زیر زمین اور پہاڑوں تک وسیع کیا اور نیوکلئیر ٹیسٹ کرتے رہے۔ جنگلوں، درختوں، زرعی زمینوں کا صفایا کرتے گئے, انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹ کا فضلہ اور دھواں، ہمارے سمندروں اور فضاؤں کو آلودہ کرتا چلا گیا۔ موجودہ ذہنی اور ماحولیاتی آلودگی میں ہماری اس بے لگام ترقی کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

ایک دوڑ لگی تھی، سب بھاگ رہے تھے۔ سوچے سمجھے بغیر۔۔۔
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ,
بے معنی چیزیں جمع کرنے کی دوڑ۔

پوری دنیا ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنس گئی تھی جسے نا کوئی توڑنے کو تیار تھا، نا سوچنے کو اور نا ہی کچھ دیر رکنے کو۔انسان یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ اپنے شعور سے قدرت پر حاوی ہوگیا ہے۔ حالانکہ قدرت ہمیں وقتا فوقتاً تنبیہ بھی کرتی رہی، یاد بھی دلاتی رہی۔ پر کامیابی اور علم کا اپنا زعم ہوتا ہےجو اکثر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف کر دیتا ہے۔ سو ہم بھی اندھے بہرے بنے رہے, دوڑتے رہے ، دوڑتے رہے۔ لیکن کب تک یہ برداشت کیا جاتا۔

اور اب فطرت نے اپنا ایک پتہ پھینکا، اور پوری دنیا کو موقوف کردیا۔ اور وہ ںھی اتنا مختصر کہ صرف برقی مائکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہم اسے وبا, عذاب یا کوئی بھی نام دیں لیکن شاید قدرت ہمیں ایک اور موقع دے رہی ہے۔ وہ شاید ہم سے کہہ رہی ہے
"ٹہر جاؤ ، سوچو؛ کس بات کی جلدی ہے؟ کیوں بے وجہ کی دوڑ ہے؟ آخر مقابلہ ہے کس سے؟

[ ] رکو اور پھر سوچو؛ وقت سب سے قیمتی چیز ہے جو چلا گیا سو کبھی نہیں ائے گا؛ تو اسے بے قیمت چیزوں پر کیوں ضائع کرتے ہو؟ یہ تو اپنی خوشیوں پر خرچ کرنے کی چیز ہے؛ تو کیا تم جانتے بھی ہو کہ تمہاری خوشی کس میں ہے؟؟

آگے ضرور بڑھو لیکن توازن قائم رکھو۔ قدم جما کر چلو کہ بے ضرورت بے لگام بھاگو گے تو توازن کھو دو گے اور منہ کے بل آ پڑو گے۔ جس زمین پر بستے ہو اسے ہی ختم کرتے ہو؟ دنیا بچے گی تو تم بچو گے نا”۔

قدرت اب بھی ہم مہرباں ہے, اس کا پیغام واضح ہے ” میں نے تمہیں معاف کیا, ایک موقع اور دیا اور تمہارا کام بھی آسان کیا۔ اب صاف ہوا میں سانس لو، صاف پانیوں کا لطف لو، صاف آسمان کا نظارہ کرو لیکن دیکھو، اب اسے صاف ہی رکھنا۔

تم نے جو کھویا ہے وہ میرا بھی ہے کیونکہ تم بھی میرا ہی وجود ہو۔ لیکن مجھے اپنے تمام حصوں میں توازن رکھنا ہے۔ اگر تم بغاوت کرو کے تو جان لو، فائنل کال میری ہی ہو گی۔۔ میرا سادہ سا اصول ہے
So don’t mess with me again”
Mother Nature

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے