یہ جو کرونا ٹائیگر فورس بن رہی ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے.
تحریک انصاف بطور جماعت ابھی تک کوئی رفاہی سرگرمی نہیں کر سکی. اس کے کارکنان کی چاند ماری کا حاصل ابھی تک صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نئی نئی گالیاں متعارف کروائی جائیں. کرونا ٹائیگر کے نام پر ریاستی وسائل ان کے ذریعے تقسیم کرانا ایک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں. جس کا مقصد صرف گروہی سیاست کو ریاستی وسائل کے ذریعے سہارا دینا ہے. ہاں یہ لوگ الخدمت کی طرح میدان عمل میں ہوتے تو اور بات تھی.
[pullquote]چند سوالات قابل توجہ ہیں[/pullquote]
1. وسائل کی تقسیم کرونا ٹائیگرز کے ذریعے کیوں؟ ریاستی عمال حکومت کے ذریعے کیوں نہیں؟
2. ریاستی ڈھانچہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تو مقامی حکومتوں کا سارا ڈھانچہ جو آپ نے معطل فرما رکھا ہے اسے بحال کیجیے. ان مقامی حکومتوں کے عوام سے رابطے تھے اور وہ یہ کام کر سکتے تھے.
3. کرونا ٹائیگر کی بھی اپنی محدودیت ہو گی. بالخصوص سندھ میں. ان کے مزاج کے بھی مسائل ہوں گے.
4. پھر بھی عام شہریوں کی ضرورت ہے تو کرونا ٹائیگر کے نام سے غیر تربیت یافتہ ٹائیگرز اکٹھے کرنے کی بجائے الخدمت جیسی پہلے سے میدان میں موجود ان تنظیموں کی خدمات لیجیے جو کام بھی کر رہی ہیں اور کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بھی رکھتی ہیں.
یہ سیاست کا وقت نہیں ہے. ڈھنگ سے کوئی کام کرنا ہے تو کیجیے. اپنے ٹائیگرز کو سرکاری وسائل کی بنیاد پر قوم کا انکل مت بنائیے . ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کی روایت ہے کہ انکل کو پنجابی میں ماما کہتے ہیں.
انہیں ماما سوری انکل بنانا ہی ہے تو سرکاری وسائل کی بنیاد ہر نہیں اپنے اے ٹی ایمز اور تنظیمی وسائل کی بنیاد پر بنائیے.