وباؤں کے سو سال اور ہماری غیر سنجیدگیاں

کورونا وائرس کے نام سے قبل دنیا نے قریب قریب ہر صدی میں اس سے پہلے ان سنی اور ان دیکھی وباؤں کا سامنا کیا ہے کرہ ارض پر پچھلی چار صدیوں کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو حیرت انگیز طور پر ایک تسلسل کے ساتھ ہر صدی میں 20 کے ہندسے کے سالوں میں مختلف وبائیں پھوٹیں جو ایک مخصوص علاقے سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئیں اور لاکھوں لوگوں کو لقمۃ اجل بنا ڈالا۔
 
لیکن پھر کیا ہوا کہ ان وباؤں سے نمٹنے کے لئے حضرت انسان نے ریسرچ شروع کی وباؤں کی وجوہات انکے خطرات انکے پھیلاؤ کے طریقہ کار کو سمجھا اور آخر کار بہت سی یا یوں کہئیے بیشتر وباؤں سے چھٹکارا حاصل کر لیا یا انکی ویکسینز ایجاد کر لیں۔
 
امید ہے اس آفت سے بھی بنی نوع انسان کسی نہ کسی طرح لڑتے بھڑتے جیت ہی جائے گا یا کم از کم اسے ہرانے کے وقتی ہی صحیح اسباب پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تب تک راقم زندہ ہو گا یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
 
1720 میں طاعون یا بلیک ڈیتھ نے فرانس میں  موت کی بنسی بجاتے ہوئے یورپ اور ایشیا کا رخ کیا جس کے نتیجہ میں صرف فرانس کے 10 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے یہ بیماری یورپ اور ایشیائی ممالک میں پھیلی تو ایک اندازے کے مطابق اس نے 75 سے 200 ملین لوگوں کو اپنا شکار کر کے ان پہ حاوی ہوئی وقت گذرتا گیا اور انسان نے اس وقت جدید ٹیکنالوجی کے بغیر طاعون کو شکست دی۔
 
پھر 1820 کے دوران ہیضے نے ایشیائی ملکوں سے نکل کر پوری دنیا کو بتایا کہ ایک بیماری کی قسم یہ بھی ہے جو انسان کی تدابیر کو الٹ سکتی ہے اس بیماری نے کلکتہ سے نکل کر انڈونیشیا، فلپائن ، تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک میں تباہی مچائی۔
 
1920 کے دورانئیے میں سپینش فلو نامی بیماری نے یورپ سمیت ایشیائی ممالک اور دیگر براعظموں میں کم و بیش 17 سے 50 ملین کے قریب لوگوں کو لپیٹ میں لیا اور اسکے بعد 1920  میں ہی ویسٹرن افریقہ میں ایڈز نامی مرض کی تژخیص ہوئی اور 35 ملین کے قریب لوگ اس سے متاثر ہوئے پھر 2014 سے 2016 تک کے سالوں میں ایبولا وائرس سے 11325 اموات ہوئیں ، ڈینگی ملیریا، پولیو جیسی وبائیں بھی جب پھوٹیں تھی تو یہ بے قابو ہو کر تباہی مچا رہی تھیں لیکن ان تمام وباؤں اور بیماریوں کو قابو کر لیا گیا۔
 
 تادم تحریر رواں سال یعنی 2020 میں کورونا وائرس نما وبا نے چائنہ سے نکل کر انٹارکٹکا کے علاوہ قریب قریب دنیا کے سبھی ممالک میں تباہی مچا رکھی ہے بعض ماہرین کے مطابق اسکے پھیلاؤ کی وجہ جانور ہیں لیکن یہ بات تاحال حتمی نہیں ہے کیونکہ دسمبر 2019 سے اب تک دنیا میں کسی بھی جانور کی موت کی خبر اس وائرس کی وجہ سے کم از کم راقم نے سنی یا پڑھی نہیں۔
 
 
تادم تحریر پوری دنیا میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ساڑھے 6 لاکھ جبکہ 30659 افراد اس بیماری کے باعث موت کی وادی کا رخ کر چکے ہیں فرانس میں 2314 ، برطانیہ 1019 ، امریکہ میں 2202 ، ایران میں 2517 جبکہ اٹلی میں 5976 افراد لقمۃ اجل بن چکے ہیں جبکہ اس بیماری سے ایک لاکھ اکتالیس ہزار چار سو چونسٹھ مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔
 
ملک پاکستان کی بات کریں تو یہ وائرس تفتان میں مس ہینڈلنگ کے بعد پورے ملک کے کونوں کھدروں میں پھیل چکا ہے پنجاب میں اس وائرس کے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں نظر آرہا ہے جن کی مجموعی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے پورے ملک میں ایک ڈاکٹر سمیت پندرہ افراد اس بیماری کے باعث جاں بحق ہو گئے ہیں۔
 
حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے عوام کو احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کی تاکید کی جا رہی ہے محدود وسائل کے رہتے حکومت اور انتظامیہ نے پوری کوشش کے ساتھ مریجوں کی تعداد کم رکھنے پر زور لگایا مگر نتائج زیادہ تسلی بخش برآمد نہ ہو سکے۔
 
بقول وزیر اعظم عمران خان انہیں اس بیماری کی آمد اور اسکے خطرات بارے جنوری سے پتہ تھا مگر دیکھنے اور جاننے والے بتاتے ہیں کہ مرکز میں حکومت نے برائے نام حرکت کی جبکہ سندھ اس حوالےسے کافی سنجیدگی سے کام کر رہا تھا یا شاہد خطرے کو بھانپ کر ایڈوانس تیاریاں شروع کر دیں تھی۔
 
خیر جو بھی ہو فلاحی کاموں پہ کوریج نہ ملنے کا رونا رونے والی پی پی پی کے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بلا شبہ بہترین کام کیا اور ملک کے دیگر صوبوں کے لئے ٹرینڈ سیٹ کر دیا جبکہ بلوچستان نے تفتان سے اس معاملے کو مس ہینڈل کیا جس کا الزام زلفی بخاری کے سر جاتا ہے واللہ عالم اسمیں کتنی حقیقت ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ تفتان پہ انتظامات ناقص ہونے کے باعث اسکا خمیازہ اب پورا ملک بھگت رہا ہے۔
 
جبکہ پنجاب کی انتظامی مشینری کی سستی کی بدولت یہاں کیسز میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے خیر یہ سب باتیں میڈیا چینلز پر چل رہی ہیں بتائی جا رہی ہیں میں جو بتانا چاہ رہا ہوں وہ پڑھ کے شاید سمجھنے والوں کو اندازہ ہو جائے کہ پنجاب حکومت نے کسس طرح صوبے میں بسنے والوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں ڈال دیا ہے۔
 
27 مارچ کو ڈی سی فیصل آباد محمد علی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ فیصل آباد سے مشتبہ 26 افراد کی بھجوائی جانے والی رپورٹس میں سے 13 کی رپورٹس موصول ہوگئی ہیں جو کورونا نیگیٹو ہیں ان میں دو مریض وہ بھی شامل ہیں جن کو نجی لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس تھا ڈپٹی کمشنر کے مطابق فیصل آباد کو فی الحال کورونا فری قرار دیا گیا اور بتایا گیا کہ پارس قرنطینہ سنٹر میں مقیم 158 زائرین کی رپورٹس آنا باقی ہیں۔
 
اس ویڈیو اعلان کے چند گھںٹوں بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ٹویٹر پیغام کے ذریعے فیصل آباد کے 22 سالہ نوجوان کی کورونا وائرس کی وجہ سے موت کی تصدیق کرت ہوئے اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔
 
پھر بالترتیب محکمہ صحت اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ مر موجود آفیشل اکاؤنٹ سے نہ صرف 1 نوجوان کی ہلاکت کنفرم کی گئی بلکہ 10  مریضوں کی کنفرمیشن بھی کر دی گئی جن میں 2 خواتین شامل ہیں۔
 
اسکے دو روز بعد 67 زائرین جن کا تعلق پنجاب کے مختلف شہرون سے ہے کو پاس قرنطینہ سنٹر لایا جات ہے اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے 4 مزید افراد میں کورونا کی تشخیص کا تصدیقی ٹویٹ کیا جاتا ہے جو چند لمحوں کے بعد ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔
 
البتہ ضلعی انتظامیہ کے ترجمان ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس بات کی تصدیق کر دی گئی کہ جاں بحق شخص سمیت مزید 13 افراد کورونا پوزیٹو ہیں ، جہاں تک ٹویٹ دیلیٹ کرنے کا سوال ہے تو حکام کی جانب سے ڈاکٹروں اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کو کورونا سے متعلق اپ ڈیتس یا انٹریوز دینے سے روک دیا گیا ہے۔
 
اب بات یہ کہ بھئی وبا پوری دنیا میں ہے مان لیا اور بات کو سمجھتے ہیں کہ کافی پرہشر بھی ہے لیکن بھئی میڈیا کو گمراہ کر کے عوام کو کنفیوژ کیوں کر رہے ہو ؟؟؟ حالات پہ نظر رکھنے والے بتاتے ہیں پنجاب کے حوالہ سے معلومات چھپائی جا رہی ہیں یا جان بوجھ کے لیٹ اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے جس کا اشارہ شہباز شریف نے بھی اپنے ایک بیان میں دیا خیر شہباز شریف کا نام لے کر کود پہ پٹواری کی مہر ثبت کروانے کی حماقت کر بیٹھا ہوں۔
 
بات چلی تھی ہر صدی میں وبا کے پھوٹنے اور اس سے لاکھوں لوگوں کے مرنے کی تو اس بارے توجہ دلانے کے ساتھ یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ پوری دنیا کی طرح ہمارے تعلیمی ادارے تو بند ہیں ہی ساتھ ساتھ ریسرچ کرنے والے افراد اور اپنے نام کے ساتھ شان سے ڈاکٹر لکھنے والے پروفیسرز ، وی سیز اور بڑے بڑے جید سکالرز منظر سے غائب ہیں، سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس وبا سے لڑنے کی ویکسین یا اس وبا کی وجوہات جانچنے یا ٹیسٹنگ کٹس بنانے پر کام کب شروع ہوگا؟؟؟
 
خیر راقم شاید زندہ بچے نہ بچے اگر مؤرخ زندہ بچا تو وہ یہ ضرور لکھے گا کہ ایک ہجوم نے  حکومت کی غیر سنجیدگی اور عوام کے معاشرتی پست روئیے کی بنا پر بے حد نقصان اٹھایا۔
 
مؤرخ کا قلم موڑنے کے لئے خدارا خود بھی احتیاط کیجئیے اور اپنوں کو بھی احتیاط کا مشورہ دیں ، شکریہ 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے