فضاسانس لے رہی ہے۔۔۔!

حضرتِ انسان کی تخلیق ہوئی تو مَلک نے مالک سے عرض کی کہ یہ پتلہ ِ خاک سرکشی و فساد فی الارض کا سبب بنے گا۔ انکارنھیں ہوا بلکہ فقط بتایاگیاکہ میں وہ جانتاہوں جو تم نھیں جانتے۔فیصلہ ہو چکاتھا کہ اس مخلوق کوزمیں پراتارنا ہے اور عام حیثیت سے نھیں بلکہ مالک کے نائب کی مسند پر یہی خاکی پیکر بٹھایا گیا۔ا پنی بقا کی صورت نکالنے کی غرض سے چند اوزار عطاکیے گئے۔ فرما دیا کہ خوراک ، رہائش اور تفریحِ طبع کے لیے کائنات کی ہر شے تمہارے واسطےمسخر کردی گئی ہے۔

کھیت کھلیان،چرند پرند ، سب کچھ انسان کے لیے تخلیق کیا گیا۔مقصد مگر واضح تھا کہ بقاوتحفظ کے لیے ہی اِن اشیا کو استعمال میں لانا ہے۔انسان نے مگر الگ راہ لی اور اپنے کنبہ وقبیلہ یا ذاتی منفعت کے لیے اپنے ہی ہم مشرب کو خوف زدہ کرنا شروع کردیا۔جنگوں کی غرض سے تلواریں ،نیزے، خنجراور وقت کے ساتھ ساتھ توپ،منجنیق پھر میزائل و ایٹم بنائے۔اپنی بقا نھیں دھاک بٹھانے کے لیے ان اشیاکااستعمال کیا جو اس کے لیے خالق نے مہیاکی تھیں ۔ معیشت کی ترقی کے لیے گھریلو دست کاری سے آغاز کیاتو ترقی کرتا ہوا کارخانوں تک آیا ، سواری کے لیےخچراور گھوڑوں کو غلام کیا پھر رفتہ رفتہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں تک آن پہنچا ۔

اس سب میں جوشے سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ کائنات تھی۔ فضا گھٹن زدہ ہوئی، ماحول آلودہ ہوا،پانی آبِ شفا سے زہر آمیز بنا اور چرند پرند،آبی مخلوق سب ہی انسان کی کارستانیوں کے سبب بے موت مرنے لگے۔زمین تنگ آچکی تھی،حر ات الارض اس کے غرور سے عاجز تھے ،جنگلی حیات اس کے مہلک منصوبوں سے سہمی ہوئی تھی ، درخت اس کی حشرسامانیوں پر جل بھُن رہے تھے اورسبزہ اس کی اکڑ سے ایسا خوف زدہ کہ اُگتا نہ تھا ۔

یہ سب انسان کی طرف سے اِ س زُعم میں ہورہاتھا کہ یہ بددماغ اشرف المخلوقات ہے۔ خالق کی طرف سے اِسے یہ "اجازت” ملی ہوئی ہے کہ تسخیرِ کائنات کے لیے کائنات کو جہنم بنادیں تب بھی کسی کیڑے مکوڑے کی کیا اوقات کہ وہ حضرتِ انسان کو روک سکے اور اپنی بقا کی خواہش کااظہار کرے۔ ترقی و عروجِ بشر کے اِ س سفر میں خالق اِس بے لگام مخلوق کے سبھی کھیل دیکھ رہا تھا۔اپنی بنائی ہوئی کائنات کی بڑھتی بدصورتی ،فطرت کے بگاڑ ،بے زبان خلقت کی تحقیر اور کمزور انسان کی تذلیل کو ایک منصف کی حیثیت سے دیکھتارہا۔آخر کار اُس نے ایک اَن دیکھی شے کو انسان کی اوقات یاددلانے کے لیے ،اپنے فرامین اوراپنی طرف سے عنایت کے گئے رتبہ کی غلط تشریح کی سزا دینے کی غرض سے تخلیق کیا۔

انسان آج اپنے تمام تر وسائل،ترقی و خوش حالی کے باوجود عاجز ہے۔کھیت کھلیان اُس کی عاجزی پر خوش ہیں،پرندے اُس کی قید پرجشن منارہے ہیں ، شجر رقص میں ہیں ، فضا سانس لے رہی ہے ،آسمان اپنے اصلی رنگ میں سایہ فگن ہے،ماحول ہشاش بشاش ہے،پانی شفاف چمک لیے انسان کو منہ دھونے کی ترغیب دے رہاہے اور حشرات الارض اِس کا ٹھٹھہ اُڑارہے ہیں ۔ انہیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہم بھی کائنات میں کسی حیثیت سے موجود ہیں ، بنانے والا ہمیں بناکربھولا نھیں بلکہ اُسے ہم پر بھی رحم آتا ہے۔

انسان کو اُس کی اصل حیثیت بتانا اس لیے ضروری ہوگیاتھا کہ یہ خودکو ہی بااختیار سمجھ بیٹھا ہے۔ بھول چکا ہے کہ وہ نائب بنا کر بھیجا گیا اوراصل حکومت حاکمِ مطلق کی ہے۔ کائنات کی تسخیر کامطلب ہر گز یہ نھیں کہ شتر بے مہار بن کر ہر شے کو پاؤں تلے روندتے گزر جاؤ۔ اپنی ضرور ت کے مطابق اپنی بقا کی غرض سے ہر شے پرتمہارا حق ہے مگر حد سے بڑھو گے تو عاجز کردیے جاؤگے۔ اپنے سوا ہر مخلوق سے جینے کا حق چھینو گے تو اِ س حد تک مجبور کردیے جاؤگے کہ زمین پر رینگتی چیونٹی بھی تمہاری بے بسی پر ہنسے گی۔

اِ ن دنوں میں اپنے اردگرد دیکھیے تو یقین جانیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہرشے ہمارے کڑے وقت میں مخالف سمت میں ہے۔سب اشیا سکون واطمینان میں ہیں کہ اِ س بے حِس مخلوق کو بھی قابو میں رکھنے کاانتظام موجود ہے۔نگاہ جس طرف جائے سبزہ ہی سبزہ نظرکو فرحت بخش رہاہے ،طلوع وغروبِ مہ ومہر کے مناظر آج آبادی سے بھرے شہروں میں بھی نظر آنے لگے ہیں ۔گاڑیوں و صنعتوں کادھواں کم ہواہے توفضا مُسکرارہی ہے،سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو روکنے والی نفیس تہہ پھر سے اپنے کام میں لگ چکی ہے،چڑیاں چہک رہی ہیں ،پھولوں کی مہک ذوق کی تسکین کاسامان کررہی ہے ، بادِ نسیم وشمیم کی تاثیر روح تک اُتررہی ہے۔بہار پورے جوبن کے ساتھ چمن پر اُتری ہے اس لیے کہ انسان قید ہیں ۔

ایک بے نشان جرثومہ نے انسان کو اُس کے اصلی کردار کی طرف رجوع کی ترغیب دینے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کے عالی دماغوں ،منصوبہ سازوں اور مقتدر طبقات کو ان حالات کابہ غور مشاہدہ کرناچاہیے اور اُسی کے مطابق ہی وبا کے بعد کی زندگی کاآغاز کرنا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ صرف انسان ہی نھیں باقی مخلوقات بھی اس کائنات کاجزوِ لازم ہیں اور اُنھیں بھی جینے،سانس لینے اور پھلنے پھولنے کوپورا حق ہے۔روزمرہ زندگی میں ماحول کو آلودہ کرنے والےعناصر کامحدود استعمال کیاجائے،دنیا بھر میں صنعتی اداروں کو سال کے چند ایام بالخصوص موسمِ بہار میں بند کردیناچاہیے تاکہ جس زمین پر ہم بس رہے ہیں اُسے بھی یہ احساس ہو کہ ہم اُس کی شفافیت کے لیے کچھ مادی نقصان برداشت کرسکتے ہیں ۔

کائنات کی ہرشے اگرچہ ہمارے لیے ہے مگر ان سب کے ساتھ ہمارا رویہ طاقت ور اور کمزور کانہ ہو بلکہ مشفقانہ اور مفاہمانہ ہونا چاہیے ۔ مادی ترقی کے سبب اس سب تباہی کے پیچھے جوسب سے اہم عنصر ہے وہ خود انسان کا انسان سےمالی ودفاعی حوالوں سے مخاصمانہ رویہ ہے۔ دنیا کو بقاے باہمی کے لیے ازسرِ نو اصول مرتب کرنا ہوں گے جن کی روشنی میں نہ صرف انسان بلکہ کائنات کاہرجُزو آزادانہ ماحول میں پل بڑھ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے