”وردی والے مارتے ہیں”


wardi waly marty hain by ibcurdu

یہ پانچ سالہ شامی پناہ گزین بچی عائشہ ہے ۔ یہ آج کل ترکی کی گلیوں میں ٹشو بیچ کر گزارہ کرتی ہے۔اسے وردی والے لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتاہے کہ عائشہ نے پولیس کی وردی میں ملبوس شخص اپنی جانب آتے دیکھا تو مارے خوف کے ایک راہگیر کے ساتھ لپٹ گئی۔ آفیسر نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل معافی مانگتی اور وردی والے سے وعدہ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ” وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گی” کیونکہ اس کا خیال ہے وردی والے مارتے ہیں۔

وہ پہلے اپنے ہاتھ کو چومتی ہے اور پھر اسے آنکھوں سے لگاتی ہے۔ اس خطے میں اگر کسی بچے سے کوئی بڑی غلطی ہو جائے تو وہ اس انداز میں معافی طلب کرتا ہے ۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر شام کے پناہ گزین بچوں کے ”فوجی لباس” سے جڑے نفسیاتی پس منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بچے تو پھول ہوتے ہیں ۔
پچے تو بادشاہ ہوتے ہیں ۔
کیا ان بچوں سے ان کی وہ فطری معصومیت چھین نہیں لی گئی؟
کیا یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ نہیں ہے؟
کیا یہ بچے ہم سب کے بچے نہیں ہیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے