‏سہ لفظی تھپکی

‏مدت ہوئی ایک دوست نے مجھ سے پوچھا تھا
‏یہ قبولیت کا لمحہ کیا ہوتا ہے آپ کو لگتا ہے ایسا کچھ ہوتا بھی ہے؟
‏میں نے اسے جواب دیا بھائی !
‏قبولیت کا لمحہ بس وہ ہوتا ہے جب آپ دنیا کے لیے قابل قبول بننے کے بجاۓ خود کو ویسے قبول کر لیتے ہیں جیسے آپ ہیں۔

‏وہ بےحد خوش ہوا میرے اس جواب سے، بہت سراہا میری اس جامع اور مختصر سی "تعریف” کو اور ہم کافی عرصہ بہت خوش اکڑے اکڑے پھرا کیے اپنی اس علامہ پردازی پر، اب آۓ دن سوشل میڈیا پر لوگوں کو دوسروں کو یہ Be your self والی گیدڑ سنگی تھماتے دیکھتا ہوں اور چند ماہ میں اس پر مبنی سینکڑوں اقوال زریں اور لوگوں کو دیے جانے والے کئی طرح کے مشورہ جات سے متعارف ہوچکا ہوں تو سوچتا ہوں کس قدر سطحی سوچ تھی میری اور کس قدر مبنی بر دشمنی اور احمقانہ مشورہ ہے جو کوئ شخص Be your self کی صورت میں کسی کو دے رہا ہوتا ہے۔

‏خوف میں احساس کمتری میں حسد میں عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا لوگو کو، خوشامد پسندی میں غرور میں جکڑے لوگو کو، خلق سے برا رویہ روا رکھتے اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا لوگو کو، بڑے چھوٹے سے بات کرنے کی تمیز سے عاری اپنے خوف اور جلن کی وجہ سے انسانوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے لوگو کو، تعلقات کو رفاقتوں کو انا کی بھینٹ چڑھاتے کسی شخص کو، ذہانت کے زعم میں بذلہ سنجی اور مذاق کے نام پر ایک دنیا کی تضحیک کرتے کسی شخص کو، یا پھر کسی نفسیاتی مسئلہ سے نبزد آزما کسی بھی شخص کو، کوئی بھی علامہ Be your self جیسا احمقانہ مشورہ دیکر اسکا ہمدرد اور ارسطو بن جاتا ہے۔

‏بنا یہ سوچے کے اس طرح کی حوصلہ افزائی اس شخص کو نا صرف معاشرہ اور رشتوں کے لیے مزید ناقابل قبول بنا دیگی بلکہ خود اسکے لیے بھی مزید مسائل اور تنہائی کا باعث بن جائیگی، جب موٹاپے پر مذاق نشانہ بننے پر آپ کسی کو Be your self کی پھکی Don’t be ashamed of your self کے چورن کے ساتھ دے رہے ہوتے ہیں تو در حقیقت آپ اس شخص کو ایک بری صحت اور تندرستی کو لاحق ڈھیروں خدشات سے بھری زندگی کو گلے لگانے کا مشورہ دے رہے ہوتے ہیں۔

‏تہذیب سے گری ہوئ گفتگو کرتے اور دن رات کی اخلاق باختگی پر ٹوکے جانے پر ڈپریشن کا ڈھنڈورہ پیٹتے کسی شخص کو جب آپ یہ مشورہ دیتے ہیں تو در حقیقت آپ اسکی دلجوئی کرنے اور بھلا کرنے کے بجائے اس کی بیہودگی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے معاشرے میں ایک اور ہٹ دھرم اور بدتمیز شخصیت کا اضافہ فرما رہے ہوتے ہیں۔

‏خیالی دنیا بسائے عمل سے غافل شخص کو دیا جانے والا Be your self کا یہ نسخہ معاشرہ میں ایک اور ناکارہ انسان کے اضافہ کا موجب بن جاتا ہے، طرح طرح کے نفسیاتی مسائل میں گھرا ہوا کوئی شخص جو صبح سے شام تک فقط اخلاق کی چمڑی ادھیڑتا پایا جاتا ہے اسکے لیے یہ سہ لفظی تھپکی کسی لائسنس کی طرح مزید بد تہذیبی کا جواز بن جاتی ہے۔

‏اور ایسا شخص اپنے مسائل کو ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہوئے نا صرف دوسروں کے لیے بلکہ خود اپنے لیے مزید منفیت پھیلانے کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔

‏اس میں کچھ شبہ نہیں کے جب یہی مشورہ کسی مثبت شخصیت کے حامل کسی انسان کو تنقید برائے تنقید کے خلاف ثابت قدم رہنے کے ضمن میں یا کسی کو بھی رجحان اور صلاحیتوں کے حوالہ سے دیا جاتا ہے تو یہ ایک مثبت اورحوصلہ افزا قدم ثابت ہوتا ہے، کسی بھی کمی اور رکاوٹ کو اپنی صلاحیتوں کے آڑے نا آنے دینا اور مستقل مزاجی سے چیلجز کا سامنا کرنے کے ضمن میں یہ ایک موثر پیغام ہوسکتا ہے۔

‏مگر نفسیات، صحت اور رویہ کے مسائل سے نبزد آزما کسی شخص کو ایسا کوئ بھی مشورہ دینا صریحاً دشمنی نہیں تو خیر خواہی بھی کسی صورت نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے، ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو معاشرہ کے لیے اپنے احباب کے لیے اور خاص طور پر اپنے اہل خانہ کے لیے ایک مثبت اور مفید فرد بناۓ اور یہ جبھی ممکن ہے کہ ہم خود کو کامل اور خامیوں سے پاک نا سمجھنے لگیں، خود کو تنقید سے ماورا سمجھ لینا اور یہ مان لینا کہ میں جو ہوں جیسا ہوں ٹھیک ہوں بہتری کا اور خود احتسابی کا راستہ روک دینے کے مترادف ہے۔

‏تنقید کا نشانہ بنتے اور ہارتے ہوۓ شخص کی حوصلہ افزائی اور مسائل کا شکار لوگوں سے غلط طریقہ سے پیش آتے لوگو کی مذمت اور حوصلہ شکنی بہت سارے دیگر اور بہتر طریقوں سے بھی ممکن ہے، کسی کو کسی بھی سلسلہ میں مشورہ دیتے وقت اور اسکے رویہ یا کسی بھی حوالہ سے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک بار ضرور سوچیے کہ یہ مشورہ یا تھپکی آپ "کسے” اور "کیوں” دے رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے