دنیا میں کہیں موت کا ڈر، کہیں زندگی کی اُمید

گذشتہ برس چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کورونا کی وبا نے زندگی کے لگ بھگ تمام پہلوؤں کا مفہوم بدل کر رکھ دیا ہے۔ بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز اور اے ایف پی کی ان تصاویر میں دیکھتے ہیں کہ کورونا کے خوف کے سائے تلے دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں ایک شخص فیس ماسک اور سر پر شاپر پہن کر سائیکل پر گھوم رہا ہے، ووہان وہی شہر ہے جہاں سے کورونا کی وبا شروع ہوئی تھی۔ حکام کی جانب سے اب اس شہر میں لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے۔

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی جرمنی میں ٹیولپ کے پھول یعنی گل لالہ جگہ جگہ کھل گئے ہیں۔ یہ پھول امید دلاتے ہیں کہ دنیا ایک دن کورونا سے چھٹکارا حاصل کر لی گی اور زندگی پھر پہلے کی طرح رنگوں سے بھرپور ہو جائے گی۔

شمالی اسرائیل کے شہر ہیفا میں حکومت نے مکینوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد جنگلی سور رہائشی علاقے کی سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔

امریکہ کے شہر نیویارک کے لنگون میڈیکل سنٹر کے باہر کھڑی کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والی ایک نرس اپنے آنسو صاف کر رہی ہیں کیونکہ اس میڈیکل سنٹر کے دیگر یونٹس کے لوگ باہر نکل کر کورونا کا علاج کرنے والے صحت کے عملے کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔

امریکہ میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر نیویارک میں ایمرجنسی میڈیکل ٹینکنیشنز کورونا کے ایک مریض کو نرسنگ ہوم سے ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس میں ڈال رہے ہیں۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ یہاں تمام دکانیں بند ہیں اور لوگوں کے گھروں کے اندر محصور ہونے کی وجہ سے ریستوران خالی پڑے ہیں۔

یورپین ملک اٹلی کے شہر برگیمو میں ایک ڈاکٹر کورونا کا شکار ایک معمر مریضہ کے چیک کر رہا ہے۔ اٹلی میں ایسے مریضوں جن میں کورونا کی علامات معمولی ہوتی ہیں کا علاج گھروں پر کیا جاتا ہے تاکہ ہسپتالوں کو رش سے بچایا جا سکے۔

صومالیہ کے ضلع موڑادیشو کے بازار میں ایک خاتون کورونا سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلہ قائم رکھ کر ایک گاہک کو پھل بیچ رہی ہیں۔ کورونا وائرس چین کے بعد یورپ اور ایشیا سے ہوتا ہوا افریقہ کے متعدد ممالک میں پہنچ گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے