عمران خان کے پرستاروں کا المیہ

عمران خان کے پرستاروں کا عمومی مسئلہ یہ ہے کہ ان کا پورا فوکس عمران خان پر ہے۔ اکثر کیسز میں انہیں اس سے کوئی خاص غرض نہیں ہوتی کہ ان کی کابینہ میں کون لوگ ہیں ، کس قماش کے ہیں،ان کا پس منظر کیا ہے یا ان کی اہلیت کیسی ہے۔

یہ رویہ واقعی پرستاروں والا ہے جیسے پرستار اپنے ہینڈ سم ممدوح یا محبوب کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ المیہ کہہ لیجیے یا کچھ اور ، محبتوں میں محبوب ہمیشہ بے عیب لگتا ہے۔ اگر اس میں کہیں کبھی کوئی اُونچ نیچ نظر بھی آئے تو پرستار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان پرستاروں کو ابھی سیاسی ورکر بننے میں وقت لگے گا۔

عمران خان نے اپنے مداحوں کو جو رُومانوی خواب دکھائے تھے وہ ایک ایک کر کے بکھر رہے ہیں۔ مجھے بھی عمران خان کے ماضی کی بہت سی ’اصولی‘ باتیں یاد آتی ہیں لیکن اقتدار کی راہداریوں کی ’مجبوریاں‘ ذرا الگ ہیں۔ ان سے ٹکرانے کے لیے کسی بلند قامت آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو کبھی کبھار ہی پیدا ہوتا ہے۔ اب ہم جس عمران خان کو جانتے ہیں وہ ایک مختلف اور ’حقیقت پسند‘ عمران خان ہے۔

عمران خان کے رومان میں مبتلا نوجوانوں میں ایک خاص چیز برابر نظر آتی ہے اور وہ ہے مسلسل ردعمل کا شکار ہونا۔ اس نفسیاتی کیفیت کے مظاہر ہم حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔ ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کمی نہیں۔ اگر اس مارا ماری کی بجائے ان کی سیاسی گرومنگ پر توجہ دی جاتی تو پاکستان کو کافی ایکٹو اور بیدار مغز قسم کی یوتھ میسر آ سکتی تھی جو کافی کچھ بدل دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتی۔ لیکن نہیں ہوا۔

مجھے اندیشہ ہے کہ عمران خان کے رُومان میں بننے والی سیاسی عصبیت کہیں ایسا غبارہ ثابت نہ ہو جائے جس میں سے کسی بھی وقت ہوا نکل سکتی ہے۔ پھر لوگ کہتے پھریں گے کہ ”ہائے! ایک سَراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کے مزید کئی برس ضائع ہو گئے،کچھ بدلنا تو درکنار ایک قدم آگے کا سفر بھی طے نہ ہو سکا“

جہاں تک رہا باقی سیاسی جماعتوں کا معاملہ تو یہ بات بالکل درست ہے کہ انہوں نے سیاست کو نچلے لوگوں تک منتقل نہیں ہونے دیا۔ طاقت کی مرکزیت کا اصول ہمیشہ ان کے سامنے رہا۔ نیچے سے چند لوگ لٹک ’پَلَم‘ کر کسی جگہ پہنچے ضرور لیکن ایسی مثالیں بھی خال خال ہی ہیں۔ ان جماعتوں پر سوال بدستور قائم ہیں۔

عمران خان تو ’تبدیلی‘ کی باتوں اور نعروں کے ساتھ آئے تھے۔ لیکن اپنی حکومت کے ابتدائی چھ سو دنوں میں انہوں نے جس قسم کی ’تبدیلیاں‘ لائیں وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ آپ ان کی ٹیم دیکھ لیں۔ آپ ان کے اختیارات کی تحدیدات ملاحظہ کر لیں، آپ اُن کی گفتگو سن لیں۔ یہ سب کچھ زیادہ اُمید افزا تو نہیں ہے۔

عمران خان کے رُومان میں مبتلا دوست ان کی پرانی ویڈیوز کے ساتھ دل بہلا سکتے ہیں۔ بانوے کے ورلڈ کپ کی جھلکیاں ری وائنڈ کر کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ شغل بھی ایک دن انہیں بور کر دے گا اور پھر یا تو وہ خاموش ہو جائیں گے یا اپنا وقت برباد ہونے پر ماتم کیا کریں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بائیں بازو کے لوگ مُٹھی سے خشک ریت کی طرح نکل جانے والی جوانیوں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے۔

افسوس ناک بات یہ ہو گی کہ عمران خان نے نوجوانوں کو جن غلامیوں سے نکالنے کی باتیں کی تھیں، عملی طور پر وہ انہیں انہی آقاؤں کے چَرنوں میں پہلے سے زیادہ بری حالت میں چھوڑ جائیں گے اور یہ بہت بڑا ڈیزاسٹر ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے