جدید مسائل میں مذہبی طبقات کے ادارکی مسائل اور الجھنیں : ریاست ، دستور اور آئین کا مطالعہ

نوآبادیاتی سحر سے نکلے، قومی ریاستوں سے ہوتے ہوئے جدید ریاستی نظم میں آ پہنچے. نئی ریاستی مباحث میں درج ذیل اہم پہلو ارتقائی اشکال میں ہمارے سامنے آئے…

1. زمینی خطہ

2. دستوری اور دستوری ابحاث

3. قانون کی بالادستی اور قانونیت کے دائرے

4. مقننہ جدید و قدیم

5. خلافت و جمہوریت کی داخلی و خارجی تنظیمات

6. مغربیت و اسلامیت کی کشمکش اور توسع و تنافر وغیرہ وغیرہ

لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو متحارب و مخالف قوتیں ہمارے سامنے رہیں جسے میں تصورِ حقیقت مطلقہ جو کہ عقل، تصور اور خدا سے ترکیب پاتا ہے کے تنا ظر میں دیکھتا ہوں کہ جس کا ڈھانچہ یوں بنتا ہے

1. دعویٰ (Thesis)

2. ضد دعویٰ (Anti Thesis)

3. ترکیب ( Synthesis )

ہم نے ریاست اور جمہوری کا جو ڈھانچہ بنا رکھا ہے اسے یوں اس سانچے میں ڈھال رکھا ہے….

دعویٰ : ریاست ، جمہوریت، قانون و دستور اور متعلقات مغربی ہیں لہذا اغیار کا نظام بالکل رد کر دیا جائے یا عبوری و وقتی طور پر قبول کیا جائے گا.

ضد دعویٰ : خلافت اسلامی ہے اور اس کا احیاء لازمی ہے یا مستقبل میں حالیہ جمہوری جدوجہد سے احیاء کی راہ ہموار کی جائے.

[pullquote]ترکیب :[/pullquote]

کچھ تیاری نہیں………. کوئی پرپوزڈ ورک نہیں اور متبادل فریم ورک اور نتائج ہمارے خالص مذہبی طبقات میں موجود نہیں ہے…..

اس فہمی وحشت کا بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے طبقات کو نہ تو سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہم سمجھنا چاہ رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ زرعی دور Agrarian Era کے قبائلی اور دارالندوہ کے منہج پر قریشیت و ہاشمیت کے فریم ورک کو ہی مسلم عصبیت پر نظم کو قائم رکھنا چاہتے ہیں. اس قیام کی بنیادی دو وجوہات ہیں :

1. تسنن و تشیع کے تناظر میں گروہی وابستگی

2. فریم ورک کو تفصیلی منصوص عقائد Detailed Given Beliefs سمجھنا..

سماجی و علاقائی ضروریات سے نکال کر عقیدے کی فہرست میں داخل کرنا ہی معاصر فریم ورک کی تفہیمی وحشت پر مسائل پیدا کر رہا ہے جس کی وجہ سے نئے اذہان مذہبی طبقات سے دور بھاگتے ہیں شاید ہمارے لیے فریم ورک کو سمجھنے کے لیے یہ آیت کافی ہو سکتی تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

[pullquote] سورہ آل عمران آیت نمبر 159[/pullquote]

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾

[pullquote]ترجمہ: [/pullquote]

ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

[pullquote]کرنے کے کام :[/pullquote]

دعویٰ، ضد دعویٰ کے جدید اور موجودہ نظم کی مکمل تفہیم اور اس کے تناظر میں تشکیل ِ ترتیب یعنی synthesis کی اشد ضرورت ہے اور کلموا الناس بقدرعقولھم کے تناظر میں ذہنِ جدید کے مطابق ایسا نظمِ جدید کی تیاری اور دنیا کو ڈلیور کرنے کی پوزیشن حاصل کرنے کی کاوشیں انتہائی ضروری ہیں ورنہ غیر مفید زرعی زمین کے نظریات فقط ایسے ہونگے جیسے اصحاب کہف کے پاس موجود سن کے اپنے وقت کے سکے، ہم اصحاب کہف، جاگنے کے بعد والا زمانہ آج کا زمانہ، زمانی ضروریات، اس کے ساتھ ساتھ compatibility aspects نہ ہونگے.. اصحاب کہف تو پھر بھی معجزہ تھے لیکن ہم دین بیزاری کا سب سے بڑا باعث بن رہے ہیں اور یہ سردمہر رویے شاید لادینیت کے فروغ کا شاید بہت بڑا ذریعہ ہوگا…. اللہ جی ان حالات سے بچائیں آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے