کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں نئے انکشافات

کووڈ۔۱۹ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے بارے میں وہی معلومات قابل اعتبار ہیں جو سائنس کے مروجہ اصولوں کے مطابق ہوں ۔اور اس حوالے سے سب سے معتبر رائے طبی ماہرین اور سائسنی محققین کی ٹھری ہے ۔ اسلئے کورونا وائرس کو سیاسی رنگ دینے کی کوششیں بری طرح ناکام ہورہی ہیں۔ آج وہ مفروضے اپنی موت آپ مررہے ہیں جوتعصب کی بنیاد پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے گھڑ لیے گئے تھے ۔ ان میں ایک مفروضہ کووڈ ۔

۱۹کی ابتدا کے بارے میں تھا، جس کی کوئی سائسنی بنیاد نہیں تھی کہ یہ وائرس چین کے شہرووہان کی ایک لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے تیار کیا گیا جہاں سے یہ لیک ہوکر پہلے چین اور بعد میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔ تاہم سائسنی محققین کی اکثریت نے اس مفروضے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وائرس کی مصنوعی تیاری تقریبا ناممکن ہے، لہذا یہ وائرس قدرتی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کو شناخت کیا گیا تو چین نے ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے دینا کے اولین ملک کے طور پر عالمی براد ری اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ اس کے بارے میں معلومات شئیر کیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وائرس کی ابتدا ووہان چین سے ہوئی ۔یہ ایک سائنسی معاملہ ہے جس پر تحقیق جاری ہے ۔حالیہ دنوں محققین نے اس حوالے سے ایسے انکشافات کیے ہیں جو وائرس کی جائے آغاز کے بارے میں نام نہاد مفروضوں کی نفی کرتے ہیں اوراس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں چین سے بہت پہلے نمودار ہواتھا۔

مثال کے طوربرطانوی محققین کی ایک ٹیم نے دنیا بھر میں 7600 مریضوں سے حاصل کئے گئے نوول کورونا وائرس کے نمونوں کا جینیاتی تجزیہ کیا ۔ ان کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس گزشتہ سال کے دوسرے نصف میں دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وائرس سرکاری طور پر رپورٹ ہونے سے بہت پہلے مغرب میں پھیلنے لگا تھا۔

اسی طرح فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ دسمبر 2019 میں ان کے ہسپتا ل میں داخل ہونے والا ایک مریض نوول کورونا وائرس سے متاثر تھا۔ اگر اس دریافت کی تصدیق ہوتی ہے تویہ اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ نوول کورونا وائرس فرانس میں دسمبر 2019 کے آخر میں پھیل چکا تھا،جبکہ سرکاری طور پرفرانس میں اس واقعہ کے ایک ماہ بعد کووڈ۔۱۹ کا پہلا کیس رپورٹ ہواتھا۔

اسی طرح امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر بیلویلی کے میئر مائیکل میلہم نے کہاہے کہ وہ نومبر 2019 میں نوول کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔اس بات کااندازہ بعد میں کئے گئے ان کے ٹیسٹ کے نتائج سے ہوا جس میں ان کے جسم میں کورونا وائرس کے اینٹی باڈی موجود ہونے کا انکشاف ہوا۔ دوسری طرف امریکہ میں سرکاری طور پر کووڈ۔۱۹ کا پہلا تصدیق شدہ کیس رواں سال 20 جنوری کورپورٹ ہوا جو مائیک میلہم کے بیان کے منافی ہے۔

ان شواہد کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت کے ترجمان کرسچین لنڈ میئر نے مختلف ممالک سے 2019 کے آخر میں رونما ہونے والے غیر واضح کیسوں کی ازسر نو جانچ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے دنیا کو وبا کی ایک زیادہ "نئی اور واضح تصویر” ملے گی۔

اسی طرح چار مئی کوعالمی ادارہ صحت نے کووڈ- ۱۹سے متعلق کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس موقع پرڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی پروگرام کی ٹیکنالوجی انچارج ماریا وان کوہوف نے کہا کہ کورونا وائرسز عموماً چمگادڑوں میں پھیلتے ہیں ۔ابھی تک کے تقریباً پندرہ ہزار مکمل جینیاتی سلسلوں کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوول کورونا وائرس انسان کا تیارکردہ نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او اس سلسلے میں متعلقہ تنظیموں اور چین کے متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ نوول کورونا وائرس کے "انٹرمیڈیٹ ہوسٹ "کا تعین کیا جا سکے ۔ اس موقع پر ایمرجنسی پروگرام کے انچارج مائیکل ریان نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کو ابھی تک امریکہ کی جانب سے وائرس کے وو ہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی سے وابستہ ہونے کے ثبوت موصول نہیں ہوئے۔انہوں نے واضح کیا کہ جینیاتی سلسلوں کے ثبوت اور ڈبلیو ایچ او کو موصول شدہ تمام آرا کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس قدرتی ہے ۔

کووڈ۔۱۹ کی ابتدا کہاں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ اس وائرس کا ماخذ کیا ہے ؟یہ مصنوعی طور پر تیار کیا گیاہے یا قدرتی ہے ؟ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ طبی ماہرین اور سائسنی محققین کی طرف سے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے مفروضوں، قیاس آرائیوں اور سیاسی بیانیوں کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے