ٹی وی کے چھاپہ مار اینکرز،جعلی ہیروز

کیمرے اٹھا کر ورکنگ کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں پر چھاپے مارنا صحافت نہیں ہے۔ ایسے چھاپہ مار ٹی وی میزبان چھوٹے موٹے پیروں،سنیاسیوں، بھکاریوں، طوائفوں، عاملوں اور کمزور قسم کے عطائیوں، کلرکوں، ماسٹروں وغیرہ کو نشانہ بناتے ہیں اور اُن کے فین ٹائپ ناظرین انہیں سماج سدھارک ہیرو سمجھنے لگتے ہیں۔

میں تو حیران ہوں کہ عوام کی جیبوں سے نکلے ٹیکس سے تنخواہ لینے والی پولیس ان چھاپہ مار پروگراموں کی ویڈیو شُوٹنگ میں کیسے شامل ہوتی ہے۔ کیسے یہ لوگ تھانوں میں جا کر ملزموں کے براہ راست انٹرویوز ریکارڈ کرتے ہیں اور ان کے منہ میں مائیک گھسیڑ کر ججوں کی طرح سوال پوچھتے ہیں؟

یہ پروگرام پرائیوٹ چینلز کے بزنس کا حصہ ہیں۔ سرکاری محکموں کے لوگ پرائیویٹ کاروباروں کے لیے کیسے اپنی خدمات (بصورت اداکاری وغیرہ) دے سکتے ہیں؟ پیمرا کبھی اس جانب بھی توجہ دے گا؟ محکمہ پولیس سے بھی کوئی پوچھے گا؟

ان پروگراموں میں جرائم کی تمثیل پر مبنی مناظر تباہ کن اثرات کے حامل ہوتے ہیں،ابلاغیات کی دنیا میں اس پہلو پر بات چیت چلتی رہتی ہے۔ لوگوں کی بلا اجازت علانیہ و خفیہ ویڈیوز بنانا اور پھر چاردیواریوں کو پھلانگنا کہاں کی صحافت ہے؟ یہ کچھ نہیں،موٹی ویشنل اسپیکرز نامی مخلوق کی طرح پس ماندہ سماج میں ہیرو بننے کا ایک سستا اور آسان طریقہ ہے۔

اس ملک میں بڑے بڑے سیاست دان اور بزنس ٹائیکون ہیں جو کئی طرح کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ کئی بڑے بڑے پلازے اور ہوٹل ہیں جہاں قانون سے ماورا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ خود ان چینلز میں ٹیکس اور ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق کئی طرح کے مسائل ہیں لیکن یہ چھاپہ مار لوگ اُدھر جانے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ ہمیشہ سافٹ ہدف پر ٹی آر پی کی ہوس میں مردار خور گِدھوں کی طرح جھپٹتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ معاشرے اور اس کی اخلاقی قدروں کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ جعلی اسٹنٹ مین قسم کے لوگ میری سمجھ میں آج تک نہیں آئے۔

معاشرے کے طاقت ور طبقات پر سوال آخر میں صحافی ہی اٹھاتے ہیں۔ ہارڈ کور اسٹوریز کو بھی وہی ہاتھ ڈالتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صحافت میں سب لوگ مثالی کام کررہے ہیں لیکن زوال کے باوجود کچھ لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی بات کہنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں، اپنی خبر وہ دسیوں فلٹرز سے گزرنے کے باوجود بھی لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ انہیں ان خبروں کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ کبھی تو یہ قیمت انہیں اپنی جان کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔ذرا غور کریں گے تو کئی مثالیں ذہن میں تازہ ہو جائیں گی۔

صحافی بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ، جو خرابیاں سماج میں ہیں اُن میں بھی ہو سکتی ہیں اور ہیں بھی۔ سمجھوتے انہیں بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن کچھ بنیادی ویلیوز کی رعایت اُن کی ٹریننگ میں شامل ہوتی ہے۔ جینوئن صحافی انفارمیشن کے معاملے میں بددیانتی نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس انفارمیشن کی بنیاد پر بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔ تاریخ کا کوئی نیا ورق مرتب ہو سکتا ہے، اس لیے وہ ذمہ داری کے ساتھ معلومات کی پراسیسنگ کرتے ہیں۔

یہ چھاپے مارنے والے لوگ صحافی نہیں ہیں ، یہ ان لوگوں کو انٹرٹین کرنے والے اداکار ہیں جو جرائم کی منظر کشی دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں،جنہیں اسکینڈلز کی تفصیلات عجیب وغریب تیز بیک گراونڈ میوزک کے ساتھ سننا اور دیکھنا پسند ہے۔ جو اپنی محرومیوں کا کتھارسس ان مسخروں کے پروگرام دیکھ کر کرتے ہیں۔ ایسے پروگراموں سے جرائم کم ہوتے ہیں نہ سماج میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے۔ یہ ریٹنگ اور ٹی آر پی کا غلیظ دھندہ ہے جس میں لوگوں (ناظرین) کی حیثیت خالی دماغ کنزیومرز سے زیادہ کچھ نہیں۔

اس ساری پریکٹس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ چھاپہ مار اینکرز لوگوں کے ہیرو بن جاتے ہیں ، پھر ان پر لوگ سوال نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں تقریبوں میں مہمان خصوصی کی کرسیوں پر بٹھانے لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ سیلفیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان سے آٹو گراف لیے جاتے ہیں۔ نتیجے میں سطحی، جذباتی اور کنفیوژ لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جاتی ہے اور sane voices آہستہ آہستہ mute ہو جاتی ہیں، جی وہی ’اسپائرل آف سائلنس‘ تھیوری والی بات، دوستو! یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے