ایک جنگلی رومانوی جوڑے کا قتل

میرے لیے تو یہ کافی تکلیف دہ منظر ہے

دو سانپ جھاڑیوں سے نکل کر ناچ رہے ہیں اور یہ شاید ان کے مِلن کا لمحہ ہے۔ قریبی بستی کے انسانوں کو ان کی بھنک پڑ جاتی ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جو عموماً ہوتا رہا ہے۔ سانپوں کا جوڑا مار دیا جاتا ہے، لوگ بتا رہے ہیں کہ یہ واقعہ آزادکشمیر کے ضلع پلندری کے علاقے جنڈی موڑ دھار، افضل آباد کا ہے۔ میں ان سانپوں کے رقص اور مِلن کی ویڈیو دیکھ چکا ہوں۔

یہ واقعہ آزادکشمیر کے ضلع پلندری کے علاقے جنڈی موڑ، افضل آباد کا ہے

میرا بچپن پہاڑی علاقے میں گزرا ہے، وہاں سانپوں کا پایا جانا عام سی بات ہے۔ کبھی کھیلتے ہوئے تو کبھی اسکول جاتے ہوئے راستے میں سانپ نظر آتے رہتے ہیں، بچپن سے ہی میرے دل میں سانپ کا بہت خوف ہے، سانپ نظر آ جائے تو دل سے چیخ سی برآمد ہوتی ہے جسم سرد پڑ جاتا ہے۔ میرے ابو اور ان کے بھائیوں اور کزنوں نے بہت سانپ مارے ہیں۔ سانپ مارنے کے بعد ان کی لمبائی ماپی جاتی تھی اور اس پر فخر کیا جاتا تھا کہ دیکھو اتنے فٹ لمبائی کا سانپ مارا ہے ۔ محلے کے چھوٹے لڑکے اس مردہ سانپ پر اپنا غصہ نکالتے تھے اور پھر لکڑی پر اُٹھا کر اسے نشیب میں کہیں پتھروں میں جھونک آتے تھے۔

کچھ لوگ گرمیوں میں گھاس کاٹتے ہوئے سانپ دیکھ لیتے تو اس کا تعاقب شروع کر دیتے تھے، کئی بار تو سَنپولیے بے خبری میں درانتی سے دولخت بھی ہو جاتے تھے۔ لیکن میں نے اپنے بچپن میں ایک بار بھی نہیں سنا کہ گاوں میں کسی پر سانپ نے حملہ کیا ہے۔ بس روایت تھی کہ جھاڑی ہو، جنگل ہو، کھیت ہو یا ندی کا کنارہ ، جہاں سانپ نظر آ گیا ، اسے مارنا لازمی اور شاید مذہبی فریضہ ہے۔ لوگ اُسے مار کر ہی دم لیتے تھے۔

سانپ کبھی کبھار گھروں میں گھس آتے تھے اور وہاں چھتوں اور کونوں کُھدروں میں موجود چوہوں وغیرہ کو اپنی خوراک بناتے تھے۔ گھروں میں آنے والے سانپوں کی موت تو یقینی تھی۔ میرے چچا نے ایسے کئی سانپ مارے جو گھر میں داخل ہوئے تھے۔ میں نے بہت بار سانپ مارنے کے مناظر دیکھے اور میری یادداشت کے مطابق ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ سانپ نے آدمی پر پلٹ کر حملہ کیا ہو، وہ بے چارہ تو بھاگنے کی کوشش میں ہی مارا جاتا ہے۔

گھر کے سانپوں کے بارے میں میری دادی کا نظریہ البتہ مختلف تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ بے ضرر سانپ ہیں۔ شاید وہ انہیں جِن سانپ بھی قرار دیتی تھیں اور ان کے قتل کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں۔ کہتی رہتی تھیں کہ اس گھر میں بھی برسوں سے ایک سانپ رہتا ہے جس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ اسے نہیں مارنا چاہیے۔

https://www.facebook.com/TheFahanAKhan/videos/656394301757340/

ایک اور بات یاد آئی ۔ اِسے روایت یا مِتھ کہہ لیجیے کہ اگر دوسانپ آپس میں لپٹے ہوئے نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ منکے سے کھیل رہے ہیں ۔ اگر اس معرکے کے دوران کوئی آدمی وہ مَنکا حاصل کر لے تو وہ بڑا خوش قسمت تصور ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ مالدار ہو جاتا ہے۔ میرے ابو کا کہنا تھا کہ انہوں نے منکے کے ساتھ لڑتا ہوا سانپوں کا جوڑا دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ منکے والی کہانی ایسے ہی گھڑی گئی ہے، دراصل یہ سانپوں کا مِلن ہوتا ہے جو اس واقعے میں بھی ہو رہا تھا۔

گاوں کے لڑکوں بالوں کے لیے گیدڑ ، لومڑی ، گوہ ، چھپکلی اور سیہہ وغیرہ کو مارنا تو ایک کھیل تھا۔ بلکہ بعض جانداروں کو مار کر وہ چالیس شہیدوں کا ثواب بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ ایک جانور کو یہ کہہ کر مارتے تھے کہ جب ایک پیمبر کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو یہ جانور اپنی پھونکوں سے آگ دہکاتا رہا تھا لہذا اسے مارنا نیکی کا کام ہے۔ جب کبھی ایسے جانور کسی کو نظر آ جاتے تو تماشا سا لگ جاتا تھا۔ تَکلوں والی سیہہ(مقامی زبان میں سیغ) کے تعاقب کا ایک واقعہ تو مجھے بھی یاد ہے۔ اندھیری رات میں ہوئے اس ناکام اِنکاونٹر کی رُوداد آج بھی کزن لوگ مزے لے لے کر سناتے رہتے ہیں۔

ایک اور حرکت یاد آئی ، موسم سرما میں بدیسی پرندوں کے غول کے غول ہجرت کر کے آیا کرتے تھے ، اس وقت چند مقامی موسمی شکاری سرگرم ہو جاتے تھے اور پورا پورا دن بندوقیں اٹھائے جنگلوں میں مارے مارے پھرتے تھے ۔ بہار (دادی اسے بیساکھ کہتی تھیں) کے دنوں میں کُکو اور فاختائیں آتیں تو ان کی جان پر بن جاتی ، ان کو مارنے کا مقصد غذائی ضروریات پوری کرنا ہرگز نہ تھا ، محض تفریح تماشے کے لیے یہ سب ہوتا تھا۔

اسکول کے لڑکے بھی غلیلیں بنا کر چڑیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے غلیل بازی کا شوق چرایا، ربڑیں بازار سے لائیں اور کسی سے غلیل بنوائی۔ میرے ایک کزن نے اس غلیل سے گھر کے سامنے دریک کے درخت پر بیٹھی ایک بلبل کو نشانہ بنایا اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر تھی ، جب میری دادی کو پتا چلا تو وہ سخت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں:” ہائے اب اس کے بچوں کا کیا بنے گا”، ایک بار ایک کلاس فیلو اور دوست نے (جو گزشتہ برس اس دنیا سے گزر گیا) زمین میں کھڈی لگانے کا طریقہ بتایا ، میں نے گھر آ کر باغ میں کھڈی لگائی اور پہلی ہی بار اس میں ایک بلبل پھنس گئی۔ میں بلبل پکڑے خوشی سے سرشار گھر کی طرف دوڑا تو اماں (دادی) نے دیکھ لیا اور اپنے مخصوص انداز میں مجھے وہ صلواتیں سُنائیں کہ مجھے ناچار وہ بلبل چھوڑنا پڑی۔

یہ تو خیر اپنے نادانی کے دنوں کے قصے ہیں لیکن سمجھنا چاہیے کہ نیچر کا اپنا ایک نظام ہے جو جانداروں کی تعداد کو متوازن رکھتا ہے، ان کی موجودگی کے کئی طرح کے فوائد ہیں جن میں سے بیشتر ماحولیات سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنگلی حیات کا اپنی خوراک کے لیے بھی ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ وہ ان کی دنیا ہے وہ جانیں اور ان کے کام جانیں ، ہم ان کے مامے چاچے نہیں ہیں کہ ان کی دائرے میں بے جا مداخلت کرتے پھریں، لیکن افسوس کہ ہم باز آنے والے نہیں ہیں۔

اب میں سوچتا ہوں کہ اس کرہِ ارض کا جو حشر ان انسانوں نے کیا ہے،اس کے بعد انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دیگر ذی روح یا جنگلی حیات سے ان کے جینے کا حق چھینیں۔ اگر کوئی جاندار انہیں بالفعل نقصان پہنچانے والا ہو تو اور بات ہے لیکن محض امکان ضرر کی بنیاد پر جنگلی حیات کا قتل زیادتی ہے۔ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ آپ اپنے علاوہ کسی اور آزاد ذی روح سے اس زمین کی سطح پر جینے کا حق چھین لیں۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ، آسٹریلیا کے جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھی ، جنگلی حیات کی بے بسی کے دلدوز مناظر ہم نے دیکھے لیکن یہ بھی دیکھا کہ لوگ وہاں ان جانوروں کی مدد کر رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں ابھی جنگلی حیات سے متعلق شعور کی بہت کمی ہے۔ حکومتوں اور وائلڈ لائف کے محکموں کو اس جانب بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ جاندار اس دنیا کی خوبصورتی برقرار رکھتے ہیں۔ جس طرح آپ جینا چاہتے ہیں،انہیں بھی جینے دیجیے۔ اگر یہ رویہ نہ بدلا تو پھر یہ حقیقت طے ہو جائے گی کہ انسان ہی اس زمین پر سب سے زیادہ موذی جاندار ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے