پاکستان میں یوم علی کے موقع پر شرکاء کو ویکسین لگانے کے بعدجلوس میں شرکت کی اجازت ملی

آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ میں ایک صحافی ہوں اور امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں اندر کی خبروں کی کھوج میں لگا رہتا ہوں۔ یہاں کانگریس، اہم سرکاری اداروں اور تھنک ٹینکس کے دفاتر ہیں جہاں رپورٹر ہونے کی وجہ سے میری رسائی ہے۔

چند دن پہلے ایک تھنک ٹینک کے دفتر میں مجھے بل گیٹس دکھائی دیا۔ شاید آپ نہ جانتے ہوں، وہ ایک کمپیوٹر کمپنی کا مالک ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ڈالروں میں ارب پتی ہے اور پوری دنیا میں خدمت خلق کے نام پر جاسوسی کرواتا ہے۔

پاکستان میں اسامہ بن لادن کیسے پکڑا گیا؟ ایک ڈاکٹر نے پولیو ویکسین پلانے کے بہانے اس کے بچوں کے خون کے نمونے لیے اور تصدیق ہوگئی کہ اسامہ ادھر چھپا ہوا ہے۔ اب بتائیں، کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا بھر میں پولیو ختم کرنے کے لیے کون پیسہ خرچ کررہا ہے؟ یہی بل گیٹس۔

اس دن بل گیٹس کو دیکھ کر مجھے تجسس ہوا۔ میں نے تھنک ٹینک میں اپنے باخبر ذرائع سے پوچھا کہ یہ پولیو کا دشمن یہاں کیا کررہا ہے؟ بے حد باخبر ذرائع نے بتایا کہ بل گیٹس ایک بہت بڑی عالمی سازش تیار کررہا ہے۔ اس سازش کا مقصد کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنا ہے۔

میں چونک پڑا۔ میری چھٹی حس بیدار ہوگئی۔ میرے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ میری آنکھیں چمکنے لگیں۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میری پیشانی پر پسینہ آگیا۔ میرے نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔ میری دھڑکن تیز ہوگئی۔

میں نے سوچا کہ اگر میں اس سازش کا سراغ لگالوں اور بھانڈا پھوڑ دوں تو دنیا بھر میں میرے نام کے ڈنکے بج جائیں گے۔ ممکن ہے کہ اس کے بعد مجھے پلٹزر پرائز مل جائے۔ بعد میں اس بارے میں کتاب لکھنے پر نوبیل انعام بھی مل سکتا ہے۔ ہالی ووڈ کے فلمساز مجھ سے اس کی کہانی خریدیں گے اور میں آسکر بھی حاصل کرسکتا ہوں۔ ایک لمحے میں بہت سے امکانات روشن ہوگئے۔

میں نے کوٹ کی بائیں جیب سے وٹامن کی ایک گولی نکال کر کھائی تو جسم سے سنسنی ختم ہوگئی اور رونگٹے بیٹھ گئے۔ میں نے باخبر ذرائع سے مزید معلومات کا تقاضا کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ ذرائع نے کہا کہ بل گیٹس نے انھیں خاموش رہنے کے لیے بہت بڑی رقم ادا کی ہے۔

خیر میں تھنک ٹینک کے دفتر سے نکلا اور شہر کے ہوٹلوں کا رخ کیا۔ اشتیاق احمد اور مظہر کلیم کے جاسوسی ناول پڑھنے کی وجہ سے مجھ میں سراغ رسانی کے جراثیم بچپن ہی سے ہیں۔ وہ جراثیم مجھے باری باری کئی ہوٹلوں میں لے گئے۔ میں ہر ہوٹل کے منیجر کو ایک نوٹ دے کر پوچھتا رہا کہ کیا وہاں بل گیٹس کا قیام تو نہیں۔ جب میری آدھی تنخواہ خرچ ہوگئی تو ایک ہوٹل میں بل گیٹس کے قیام کی تصدیق ہوگئی۔

میں شام کو ہیٹ پہن کر اس ہوٹل کی لابی میں جا بیٹھا۔ ہیٹ سے منہ ڈھک لیا تاکہ کوئی مجھے پہچان نہ لے۔ واشنگٹن میں مجھے ویسے ہی کوئی نہیں جانتا۔ افطار کا وقت ہوا تو میں نے کوٹ کی دائیں جیب میں موجود کھجور سے افطار کیا۔ پانچ منٹ بعد بل گیٹس بیرونی دروازے سے داخل ہوا۔ وہ لفٹ کی طرف بڑھا تو میں بھی لپکا۔ لفٹ میں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔

میں نے موقع غنیمت جان کر بل گیٹس سے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ آپ کا ایک چھوٹا سا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ بل گیٹس نے کہا کہ بھائی، پانچ منٹ بعد افطار کا وقت ہونے والا ہے۔ آپ آدھے گھنٹے بعد میرے کمرے میں آجائیں۔ میں تب تک مغربین پڑھ کر فارغ ہوچکا ہوں گا۔

میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیا بل گیٹس مسلمان ہوچکا ہے؟ کیا وہ نماز پڑھتا ہے؟ کیا وہ روزے رکھتا ہے؟ میں اسی ادھیڑبن میں نیچے اترا اور دوبارہ لابی میں بیٹھ گیا۔ آدھا گھنٹا گزارنا میرے لیے مشکل ہوگیا۔

آدھے گھنٹے بعد بل گیٹس نے انٹرویو میں کیا سنسنی خیز انکشافات کیے، وہ دس منٹ تاخیر سے روزہ کیوں افطار کرتا ہے؟ اس نے مغرب اور عشا کی نمازیں ملاکر کیوں پڑھیں؟ ایران نے خفیہ طور پر اسے آیت اللہ کی اعزازی ڈگری کیوں دی؟ اس کے لاکھوں ڈالر سے کرونا وائرس کی ویکیسن کتنا عرصہ پہلے بن چکی ہے؟ وہ ویکسین پاکستان میں یوم علی کے جلوس میں شرکت کرنے والوں کو چند دن پہلے کیسے فراہم کی گئی؟ یہ سب باتیں ایک خفیہ راز ہیں جو میں اس لیے نہیں بتاسکتا کہ آیت اللہ بل گیٹس نے مجھے قسم دی ہے کہ کسی کو نہیں بتانا۔

نوٹ :تحریر کو بہت زیادہ تحقیق کر کے نہایت اہم بنایا گیا ہے . مدیر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے