ام رباب چانڈیو کیس: تصویر کا دوسرا رخ

(پہلا حصہ)

سوشل میڈیا ہمارے زمانے کی ایک بہت بڑی حقیقت بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 17 کروڑ افراد موبائل استعمال کرتے ہیں۔ اور کل آبادی کے17 فیصد سے زائد لوگ یعنی لگ بھگ 4 کروڑ لوگ سوشل میڈیا کی کوئی نہ کوئی ایپ استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا یہ استعمال کچھ لوگوں کو ان کی رائے بنانے اور واقعات کو ایک خاص پیش کرنے کی سہولت بھی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عموما خبر یا واقعات کی تصدیق نہیں کی جاتی بلکہ چیزوں کو زیادہ تر ان کی ظاہری علامات پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ اس لئے لوگوں کی سادہ دلی، عمومی طور مقبول ہونے والی سوچ اور ہمدردانہ جذبات کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو سوشل میڈیا ہے ذریعے یہ سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ حقائق صرف وہ ہیں جو دکھائے جا رہے ہیں۔ اور اس یکطرفہ بیانیے کو جدوجہد اور ایکٹیوازم کا نام دے دیا جاتا ہے۔ چانڈیو قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والی، سندھ کے علاقے میہڑ کی ام رباب چانڈیو کا کیس یا کیمپین بھی اس کی سوچی سمجھی ایک مثال ہے۔ ام رباب کون ہے یہ ہم آپ کو بعد میں بتاتے ہیں۔ پہلے آئیں آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں۔

اس کہانی کے اصل کردار، ام رباب کے دادا کرم اللہ چانڈیو ہیں۔ ام رباب کے دادا مقتول کرم اللہ کی کہانی 1984 سے شروع ہوتی ہے جب ان کے بھائی گل حسن کو قتل کرکے جانوری قبیلے کے افراد نے لاش کو جلادیا، جواب میں ایف آئی آر کے مطابق ام رباب کے دادا مقتول کرم اللہ نے اپنے کزن بدنام زمانہ ڈاکو یعقوب چانڈیو کے ساتھ مل کر جانوری برادری کے ایک فرد سوجھرو جانوری کا قتل کردیا، پھر ایف آئی آر کے مطابق ان دونوں نے اللہ ڈنو جانوری نامی گاؤں پر حملہ کیا، جس میں 13 افراد قتل ہوگئے، ام رباب کے دادا کرم اللہ کے کزن بدنام زمانہ ڈاکو یعقوب چانڈیو وہ کردار ہے کہ جس نے سکھر جیل پر 1986 میں حملہ کرکے اپنے 38 ڈکیت ساتھیوں کو رہا کرایا تھا، عالمی سطح پر بھی اس واقعے کی کافی کوریج ہوئی تھی۔

پندرہ سے زائد قتل کے الزام میں ام رباب کے دادا کرم اللہ 1986 میں گرفتار ہوئے اور حیرت انگیز طور پر اسی برس جس دن ان کے کزن بدنام زمانہ ڈاکو یعقوب چانڈیو مارے گئے، اس کے اگلے روز کرم اللہ کو رہا کردیا گیا، کہا جاتا ہے کہ ام رباب کے دادا جیل میں پولیس کے مخبر بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے ڈاکو رشتے دار کو مروا دیا، جس کے بدلے میں ایف آئی آر کے مطابق ڈاکو یعقوب چانڈیو کے بھائی علی مراد نے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ام رباب کے دادا کرم اللہ کے بیٹے اور بھائی کا قتل کردیا، اس معاملے کا تصفیہ کچھ ایسے ہوا کہ ڈاکو یعقوب چانڈیو کے گھرانوں کی تین لڑکیاں ام رباب کے دادا کرم اللہ کو مل گئیں، یہ تینوں لڑکیاں آج بھی ام رباب فیملی کا حصہ ہیں۔

ام رباب کی فیملی کا یہ مختصر پسِ منظر ہے اور یہ تمام حوالہ جات ایف آئی آرز کی قانونی دستاویزات سے لئے گئے ہیں، 2014 میں ام رباب کے والد مختار پر سائتھ چانڈیو نامی شخص کے قتل کا مقدمہ بھی درج ہے، 2005 میں ام رباب کے والد مختار پر اے این ایف سکھر نے چھ من چرس رکھنے کا مقدمہ درج کیا اور اپنی آخری سانسوں تک ام رباب کے والد ان دونوں مقدمات میں اشتہاری بھی رہے۔ ام رباب کے مقتول دادا کرم اللہ پر درجن بھر قتل کے مقدمات تھے، یہ مقدمات زیادہ تر ضیاء اور مشرف دور میں قائم ہوئے، لہذا انہیں سیاسی مقدمات بھی نہیں کہا جاسکتا، ام رباب کے دادا اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں مقتدر قوتوں کے منظور نظر لیاقت جتوئی کے ساتھی بھی رہے ہیں۔

ایف آئی آر کا عکس

ام رباب کے ایک چاچا منظور چانڈیو اس قتل کیس کے گواہ ہیں، ان کے خلاف 2005 میں منشیات رکھنے کی ایف آئی آر درج ہے، اس قتل کیس کے ایک اور گواہ منظور چانڈیو کے بھائی اعجاز چانڈیو ہیں، یہ موصوف ایک کالعدم تنظیم کے تحصیل صدر بھی رہے ہیں، یہ وہ افراد ہیں کہ جن کی گواہی کی بنیاد پر ام رباب کیس کا پورا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے۔

سن 2018 کے آغاز میں سترہ جنوری کی صبح لگ بھگ نو بجے سندھ کے دیہی علاقے میہڑ ضلع دادو میں تین افراد قتل ہو جاتے ہیں۔ یہ قتل ہونے والے افراد اکرام اللہ چانڈیو، ان کے دو بیٹے مختار چانڈیو اور قابل چانڈیو تھے۔ ام رباب مختار چانڈیو کی بیٹی اور کم اللہ چانڈیو کی پوتی ہیں۔ یہ تہرے قتل کی واردات سہی، لیکن یہ کوئی ٹارگٹ کلنگ کی یا سوچے سمجھے قتل کی واردات نہ تھی بلکہ مقتولین ام رباب کے دوسرے چچا کی ایف آئی آر کے مطابق اپنے ہی رشتے داروں اور چانڈیہ برداری کے افراد کے ہاتھوں مارے گئے۔ لیکن کوئی اس حقیقت سے پردہ نہیں اٹھاتا کہ اس دن فائرنگ کے تبادلے میں ان کے ہاتھوں حملہ آوران کا ایک رشتہ دار غلام قادر چانڈیو بھی مارا گیا جس کی بیوی کی ایف آئی آر ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ افسوس ناک جانوں کا ضیاع، نسل در نسل ایک پرانی خاندانی و سیاسی جھگڑے کا نتیجہ تھا جس کو آگے چل کر کچھ نامعلوم قوتوں کی جانب سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے سیاسی رنگ دے دیا گیا۔

خیر، 2018 میں ہونے والے ام رباب کی فیملی کے تین قتل کا تعلق 2010 کے اس واقعے سے ہے کہ جب غلام قادر کے کزن علی شیر کا قتل ہوا، اس کا مقدمہ ام رباب کے دادا کرم اللہ، والد مختار اور ایک رشتے دار کے خلاف درج ہوا، یہ وہی غلام قادر ہیں کہ کو ام رباب کی فیملی کے تین افراد کو قتل کرتے ہوئے مارے بھی گئے اور ان کے مقدمے کی ایف آئی آر غیرقانونی طور پر بی کلاس کردی گئی، اس وقت ام رباب کی فیملی کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم غلام مرتضی نے ام رباب کی فیملی سے بدلہ لینے کے لئے ان کے خاندان کے دوافراد قتل کئے جس کا مقدمہ 2011 میں نوشہرہ فیروز کے تھانے میں درج ہوا اور یہی معاملہ تھا جس کے نتیجے میں غلام مرتضی اور مقتول عبدالقادر نے اپنے ساتھی سکندر کے ساتھ مل کر ام رباب کے دادا، والد اور چاچا کو قتل کیا۔

یہ کھیل یہاں تک پہنچتا ہی کہ پردہ اٹھتا ہے اور سٹیج پر ام رباب چانڈیو نامی ایک قانون کی طالبہ نمودار ہوتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے