جبری گمشدگیوں پر پاکستانی پروفیسرز کی خاموشی

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ نہ جانے کب حل ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور ملک کو گیریژن اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔ وکلاء ، صحافیوں ، سیاسی کارکنوں، مذہبی تنظیموں کے ارکان، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور بلاگرز کا معاملہ اس حوالے سے بہتر ہے کہ جب ان میں سے کسی فرد کو ماورائے قانون و آئین اغواء کر کے لاپتہ کیا جائے تو ان کی کمیونٹی شور مچاتی ہے، احتجاج کرتی ہے۔ بنیادی کردار کمیونٹی کا ہوتا ہے ، باقی لوگ پھر ساتھ جڑتے جاتے ہیں۔

اس احتجاج کے نتائج بھی کبھی کبھار سامنے آ جاتے ہیں اور اغوا کاروں کو مغوی کو عدالت کے سامنے لانا پڑتا ہے۔ کئی بار ایسا نہیں بھی ہوتا لیکن اس احتجاج سے ایک دباؤ ضرور بن جاتا ہے جو سوال کو زندہ رکھتا ہے اور سمجھنا چاہیے کہ سماج کی نمو کے لیے سوال کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ سوال کی موت سماج کو متعفن جوہڑ میں بدل دیتی ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ دن سے سوشل میڈیا پر گنے چنے لوگ ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری نام کے معزز استاد کی جبری گمشدگی کے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔ کم و بیش سبھی لوگ ان کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ طاہر اسلام عسکری کو بھی اسلام آباد سے لاپتا کیا گیا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ کرام اپنے فیلو پروفیسر کی بازیابی کے لیے کوئی منظم مہم نہیں چلا رہے؟ وہ ماورائے قانون گمشدہ کرنے والوں کے خلاف بول نہیں رہے؟ حالانکہ باقی طبقات کی طرح اساتذہ اور لیکچرز کی بھی تنظیمیں موجود ہیں۔

کسی بھی شہری کو آئین میں دیے گئے اس کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے تو معاشرے کے تمام فعال طبقات کو بلا تفریق اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے لیکن پاکستان میں جو صورت حال ہے ، اس میں بنیادی احتجاج اس شخص کی کمیونٹی کرتی ہے، باقی لوگ ان کی آواز میں آواز ملاتے ہیں۔ ڈاکٹر عسکری کے معاملے میں ان کی کمیونٹی کا سرد مہر رویہ کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ حریت فکر کے باب میں ہماری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کرام کہاں کھڑے ہیں؟

یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے ممتاز دانشور قاضی جاوید کا چار دہائیاں قبل لکھا گیا ایک مضمون ”یونیورسٹی اور معاشرہ“ یاد آ رہا ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے بڑی تفصیل سے یونیورسٹی کی حیثیت اور اس کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر وہ مضمون میسر ہو تو ضرور پڑھ لینا چاہیے۔

یونیورسٹی وہ جگہ ہے جہاں آپ بطور فرد اپنے سماجی کردار کو ڈیفائن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ طلبہ کو سماج کا فعال جزو بنانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ خاص طور پر سوشل سائنسز کے مختلف شعبوں میں طالب علم کو اپنی سماجی حیثیت ، اہمیت ، اپنے اور ریاست یا سماج کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس تربیت کے بعد جب وہ سماجی دھارے کا حصہ بنتا ہے تو اس کی اپروچ passive نہیں ہوتی بلکہ وہ سماج میں مثبت انداز میں کنٹریبیوٹ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

اگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ کرام نوٹس کی فوٹو کاپیاں بانٹنے، امتحانوں میں انہی نوٹس سے سوال پوچھنے، روٹین کی اسائمنٹس کے لین دین ،نمبروں کی بارگیننگ ، صدور شعبہ کی خوشامد اور محض اپنے کریڈٹ آورز پورے کرنے کی فکر میں مبتلا ہیں تو معذرت سے ان میں اور دیگر ”نوکری بازوں“ میں کوئی فرق نہیں ہے اور جن یونیورسٹیوں میں وہ نوکری کرتے ہیں وہ کاغذ کی ڈگریوں کے ٹکسالوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ نوکری بازی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کو بزدل اور خود غرض بنا دیتی ہے۔

یونیورسٹی کے اساتذہ کو ضابطوں کی پابندی تو کرنی چاہیے لیکن چند چیزیں ایسی ہیں جن میں ایکٹوزم انسانی ضمیر کا تقاضا ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ بنیادی شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی پامالی بھی ایسا ہی معاملہ ہے جس پر آواز اٹھانی چاہیے۔

یہ درست ہے کہ آواز اٹھانے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا لیکن کمیونٹی کا ایک چھوٹا سا گروہ ایسا تو ہو جو ان مسائل پر یکجہت ہو کر صدا لگائے اور ظلم کو چیلنج کرے۔ بدقسمتی سے پروفیسرحضرات کا یہ کیمپ ویران ہے۔

ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری کے لیے سب طبقات کو آواز اٹھانی چاہیے اور ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یونیورسٹیوں کے معزز اساتذہ بھی کبھی نہ کبھی اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہوں گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے