آوازوں سے ڈرنے والے

روئے زمین پر ایسے خطرناک ہتھیار موجود ہیں جو آن واحد میں اس کو تباہ کر کے قصہ پارینہ بنا سکتے ہیں. ایسے زہر موجود ہیں جن کی بُو نتھنوں سے ٹکرانے کے چند ہی لمحوں بعد آپ کو موت کی وادی میں دھکیل سکتی ہے، آپ اپنی دنیا میں مگن ہوں کوئی لیزر گن آپ کی جان لے سکتی ہے، سنائیپر، لیزر گائیڈڈ میزائلم ڈرون ٹیکنالوجی اور اس قبیلے کے کئی ہتھیار سو فیصد ایکیوریسی کے ساتھ کسی کو بھی کہیں بھی ٹھکانے لگا سکتے ہیں.

لیکن حیرت ناک بات ہے کہ ان سب ہتھیاروں کے مالک مگر خوفزدہ ہیں تو بس ‘آواز’ سے.

گویا آواز ان ہتھیاروں سے بہت ہی بھاری شے ہوئی. آواز یا صدا سے ایوان لرزتے دیکھے گئے ہیں.
ہاں اگر یہ حکمت سے خالی ہوئی تو پھر پٹاخہ ہی رہے گی.
اور اگر حکمت سے بھرپور رہی ، کردار کے تابع رہی، اصول پر قائم رہی تو پھر اسی آواز سے قیامت بپا ہونی ہے(صور اسرافیل ) اور پھر اسی آواز سے خلق خدا اپنی کمر پہ بوجھ لے کر کھڑی ہو جائے گی. ‘کن فیکون’ بھی تو آواز ہی ہے بھائی!

آواز کی اہمیت کو سمجھنے پہ اتنا زور نہیں لگتا جتنا اس کو دبانے میں لگایا جارہا ہے.

آوازوں کی ترتیب سے مدھر گیت بھی تو بن ہی جاتے ہیں . صرف نوحے بنانے پہ کیوں تلے ہوئے ہو.

سنو تو سہی ،سمجھو تو سہی جس گلشن کے نام پر تم بندے اٹھائے جا رہے ہو. کیا یہ ”آواز” بھی اسی گلشن کے نام نہیں؟؟؟

آواز کا سامنا کرو، ڈرتے کیوں ہو؟ یہ کوئی گولی تھوڑی ہے جو تمھاری جان لے لے گی؟ ہاں مگر یہ تمہاری سوچ بدل دے گی اور تم سوچ کو بدلنے سے ڈرتے ہو!

آوازیں روکنے کے ناممکن عمل میں وقت اور پیسہ برباد کرنے کی کوشش کے بجائے ان کے کہے کو تولو تو سہی. لیکن آپ کون ہو تولنے والے! رموز اوقاف والوں کی خدمات حاصل کر لو، غیر جانبداری سے وہ کچھ کہہ دیں توٹھیک.

معاشرے میں خاموشی کے خیمے سجا کر تم کیا سمجھتے ہو کہ راوی سب چین لکھے گا؟ نہیں بھائی جسے تم چین سمجھ رہے ہو، بہت قلیل وقت میں ایسا پر تعفن جوہڑ بن جائے گا کہ زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا.

متضاد بیانیوں کی موجودگی اہم ہوتی ہے. اس طرح کی کئی آوازیں دنیا میں بلند ہوتی رہتی ہیں. لیکن عوام کی اکثریت جن امور کو قبول عام کا درجہ دے دے وہ ہو کر رہتی ہیں. یہ بات بجا طور پر درست معلوم ہوتی ہےاور اس کی تائید کئی گمنام ماہرین سے بھی مل چکی ہے.

عوام کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے چانکیائی دماغ یہ کچھ کرتے رہیں گے . ہمارے لیے خاموشی اور شک کے سوا کوئی چارہ نہیں تاوقتیکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے.

تحقیق و تفتیش کی دنیا کہتی ہے جو دکھتا ہے وہ ہے نہیں اور جو ہے وہ دکھتا نہیں. انسان پرت در پرت پر اسرار ہو سکتا ہے. وہ ”سجی دکھا کرکھبی مارنے” کے ارادے رکھ سکتا ہے. اور عین ممکن ہے کہ وہ ریاست اور حکومت کے معاملے میں جانے انجانے میں کسی کا مہرہ ہو.

لیکن کیا قانون بانجھ ہے کہ بغیر نمبر پلیٹ اور کالے شیشے والی گاڑی میں بٹھا کر آنکھوں پر پٹی چڑھا کر یا تو مکمل غائب کر دیا جائے؟ یا پھر اگر وہ ذرا تگڑا ہوا تو اندرون شہر گھما پھرا کر کسی دور دراز مقام پر اتار دیا جائے؟ بغیر کسی عدالتی اجازت کے اس کی پرائیویسی میں دخل دیا جائے؟ کیا اس کی بیوی اور بچے ریاست کے باشندے نہیں؟ بغیر کسی وجہ کے اٹھانا گھر میں کتنا خوف و ہراس اور بے یقینی پیدا کرتا ہے؟ کیا ریاست ایسی ماں ہوتی ہے جو اپنے ہی بچوں میں عدم تحفط پیدا کر رہی ہو؟

بھائی صاحب! ریاست ایک ضابطے کی پابند ہوتی ہے، ریاست اور باشندہ ریاست کے تعلقات اس ضابطے کے تحت طے ہوتے ہیں.

حیران ہوں اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے اپنی نسلوں کے بارے میں لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے ہو. آج نہیں تو کل آپ کی چادر اور چار دیواری کے ساتھ یہ حشر ہوا تو کہاں جاؤ گے.

اس ملک کو سب کے رہنے کی جگہ بناؤ. یہ کسی کے زور آور کے بزرگوں کی جاگیر نہیں ہے. اس طرح کی کارروائی ڈالنے سے پہلے قانونی جواز مکمل کرو تاکہ تمہیں بغیر نمبر پلیٹ کی کالے شیشوں والی گاڑی میں منہ پر ماسک چڑھا کر رات کی تاریکی میں نہ آنا پڑے.

ملک میں امن امان کی بحالی قانون کی بالا دستی سے جڑی ہے نہ کہ اغوا گردی سے.

آواز سے نہ ڈرو. زبان بندی ہو بھی گئی تو کوئی بات نہیں. دل کی دھڑکن بھی ایک آواز ہے. جب وہ ضابطوں کو پلٹنے پر آمادہ کرتی ہے تو پھر ہاتھ گریباں کو آتے ہیں. تمہیں اس لمحے سے ڈرنا چاہیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے