کون سا نظام ؟

کیا چین کاسیاسی نظام‘پاکستان کے لیے بھی سازگار ہے؟

ہم پرایک دورایسا بھی گزرا ہے جب ہمیں خوش خبری سنائی گئی کہ لینن اورسٹالن کی قیادت میں‘ایک جنتِ ارضی آباد کی گئی ہے جہاںخلقِ خدا راج کرتی ہے‘جو میں بھی ہوں اور جو تم بھی ہو۔لوگ سرشار ہو کر ساحر لدھیانوی کی ‘طلوعِ اشتراکیت‘ پڑھتے تھے اور خواب دیکھتے تھے کہ ہندوستان بھی روس بن جا ئے۔جب آہنی پردہ ہٹا تو معلوم ہوا کہ جہنم کی کوئی تصویر ہو سکتی ہے تووہی ہے جسے سٹالن نے آباد کیا۔دور کے ڈھول سہانے۔

اس کے برخلاف سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف قائم رہا بلکہ اس نے ایک صدی تک دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کی ۔اس کا یہ اقتدار تادمِ تحریر قائم ہے۔اس میں کیا شبہ ہے کہ اس کا اندروں چنگیز سے بھی تاریک تر ہے۔اس کے باوجود‘وہ کیا جوہر ہے جس نے اسے فنا کے گھاٹ اُترنے سے محفوظ رکھا۔یہی نہیں‘ آج اشتراکی جنتوں پہ بھی اسی کا پھریرا لہرا رہا ہے۔

میرا احساس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ایک پہلو سے خود کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ بنایا اور وہ ہے شخصی آزادی کا تصور۔سرمایہ دارانہ تصورِ انسان ادھورا ہے۔اس پر اُٹھنے والے اعتراضات میرے علم میں ہیں۔تاہم اس نے انسان کے بعض فطری مطالبات کو دریافت کیا اور ان کو بنیاد مان کر ایک نظامِ حیات ترتیب دیا۔اس نے اس راز کو سمجھا کہ آزادی انسان کا فطری مطالبہ ہے اور اس کو رد کرتے ہوئے کوئی نظام‘معاشی ہو یا سماجی‘قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔

کھلی منڈی کے تصور اورفرد کی معاشرتی آزادی کے خیال نے‘سرمایہ دارانہ نظام کو انسانوں کے لیے قابلِ قبول بنا دیا۔اس نظام میں انسان کے جسم ہی پر نہیں‘ اس کے ذہن پر بھی اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا۔حریتِ فکرکو بنیادی قدرمان لیاگیا۔یہی سبب ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں‘جب نظری تقسیم زیادہ واضح ہوئی‘فکر و فلسفے میںارتقا کے تمام مظاہر مغرب ہی میں سامنے آئے۔یہاں تک کہ اسلامی علوم اورفکر میں بھی اگر نئے دریچے واہو ئے ہیںتو مغرب میں‘الا ماشااللہ۔

پانچ سال پہلے‘22جولائی2015ء کو برمنگھم یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ اس کے ہاں قرآن مجید کاقدیم ترین نسخہ موجود ہے۔یہ جس جانور کی کھال پر لکھاگیا‘اس کے بار ے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق عہدِ رسالت سے تھا۔اس کی دریافت کا اعزاز ایک خاتون البافیڈلی کو ملا۔یہ قرآن مجید کی تاریخی تسلسل پر دورِ جدید کے علمی معیار پر پورا اترنے والی ایک شہادت ہے۔’ترجمان القرآن‘ جولائی کے شمارے میںچھپنے والے سید ظفر احمد صاحب کے مضمون میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

ہم صرف ان سازشوں سے واقف ہوتے ہیں جوہمارے خیال میں مستشرقین قرآن مجید کو تاریخی اعتبار سے مشتبہ بنانے کے لیے کرتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ قرآن کی صداقت پرجدیدگواہیاں بھی وہیں سے آ رہی ہیں۔چند بد طینت لوگوں کے سوا‘یہ سب اُس آزاد فکری فضا کے مظاہر ہیں جو کسی تعصب کے بغیر انسانی ذہن کو اپنے نتائجِ فکر مرتب کرنے کا ماحول فراہم کرتی ہے۔اس خاتون کے پیش ِنظر یہ نہیں تھا کہ وہ قرآن کی تاریخی حیثیت کے حق میں ثبوت فراہم کرے۔اس نے تحقیق کی اوراس کاجو نتیجہ نکلا‘ ہمارے سامنے رکھ دیا۔

یہ بات بھی قابلِ غورہے کہ سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرنے والوں نے بھی یہی پسند کیاکہ وہ کسی سرمایہ دار ملک میں رہیں اور ان کے بچے بھی وہیں پرورش پائیں۔

1960ء میں اشترکی فکر کے علم برداراورسرمایہ داری کے جوبڑے ناقد ہمارے ہاں ابھرے‘ان میں طارق علی نمایاں تھے۔وہ عشروں سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں اورتسلسل کے ساتھ اشتراکی نظام کے فوائد اورسرمایہ داری کے مفاسد بیان کر رہے ہیں۔وہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں یہ فکری آزادی ماسکو یا بیجنگ میں نہیں‘لندن میں مل سکتی ہے۔

انسان صرف پیٹ اورمعدے کانام نہیں ہے۔وہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کی شخصیت کا ایک جمالیاتی پہلو ہے اورایک روحانی۔اس کی نشوو نما کے لیے فطری ماحول وہی ہو سکتا ہے جو اس کی شخصیت کے ان تمام پہلوں کوپیشِ نظررکھے۔مغرب کے تصورِ انسان میں ان باتوں کو ادراک کیا گیا ہے۔برصغیر کے معروف عالمِ دین مولانامنظور نعمانی کے صاحب زادے‘مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی برطانیہ میں رہتے ہیں۔وہ خود بھی ایک نامور عالم ہیں۔انہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ نماز میں جو لطف برطانیہ کے مسجد میں آتا ہے‘وہ یہاں بھارت میں نصیب نہیں ہوتا‘حالانکہ بھارت میںمسلم معاشرت پائی جاتی ہے۔

کسی کج بحثی سے بچتے کے لیے‘مجھے حفظِ ماتقدم کے طور پر یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ میں اس کالم میں اسلام کے تصورِ انسان اور مغرب کے تصورِ انسان کا تقابل نہیں کر رہا۔ میں اپنی کتاب ‘علم کی اسلامی تشکیل‘ میں اس پر تفصیلاً لکھ چکا۔مجھے یہاں صرف یہ واضح کر نا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جو معاشرہ وجود میں آیا‘اس نے انسان کی حیرتِ فکر کو ایک قدر کے طور پر قبول کیا اوریوں ہر آدمی جو آزادی ٔفکر پر مفاہمت نہیں کرتا‘ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے کسی مغربی ملک میں رہنے کا موقع ملے۔

سرمایہ داری کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا بھر کی ذہانتیں ان ممالک میں جمع ہو گئیں اور یوں بالواسطہ یا بلاواسطہ‘اس نظام کی ترقی و ارتقا میں شریک ہوگئیں۔یہ کسی نظام کی اتنی بڑی کامیابی ہے جس کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب اس نظام کے زوال کی بات ہو تی ہے تو مجھے قبول کرنے میں تامل ہو تا ہے۔میرے نزدیک کسی نظام کی کامیابی کا انحصار اس بات پرہے کہ وہ انسانی فطرت سے کتناقریب ہے۔اس کا تصورِ انسان کتنا فطری ہے۔ اس بات کو معاصر نظاموں میں سرمایہ داری سے بہتر طور پر کوئی نہیں سمجھ سکا۔

پاکستان جب وجود میں آیا توہمارے پیش نظر ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو ہماری تہذیبی آزادی اور ارتقا کے لیے ایک آزاد ماحول فراہم کرے۔بطور اقلیت مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد‘وہ ہندو اکثریت کے جبر کا شکارہو جائیں گے جس سے ان کی تہذیبی اور فکری آزادی مجروح ہو گی۔یہ محض اقتصادی مواقع کی مساوات کا معاملہ نہیں تھا۔ اس تصور سے وابستگی کا منطقی نتیجہ‘ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں لوگوں کی آزادی فکر و عمل کو یقینی بنایا جا ئے۔

دنیا میں کوئی آزادی بے لگام نہیں ہوتی۔مہذب ممالک میں لگام ڈالنے کا کام قانون سے لیا جاتا ہے۔قانون بھی وہ جوعوام کے منتخب نمائندے بناتے ہیں۔کسی سماجی طبقے یا ریاستی ادارے کو یہ حق نہیں دیا جا تا کہ وہ عوام کے لیے اپنی مرضی سے قانون بنائے یا اقدام کرے۔ پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو لازم ہے کہ اس کا نظام اس کے قیام کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔یہ مقصد آزادی ٔفکر وعمل اور قانون کا حاکمیت ہے۔یہ حق کسی سماجی یا ریاستی ادارے کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جب چاہے کسی شہری کو اس کی آزادی سے محروم کر ے۔مہذب دنیا میں تو یہ حق قانون کو نہیں دیا جاتا۔ہمارے آئین میں بھی بنیادی انسانی حقوق کوبنیادی مقدمات میں شامل کیا گیا۔گویا ایسا قانون بنانے کی ممانعت کر دی گئی ہے جو فرد کو بنیادی حقوق سے محروم کرے۔

قانون عام آدمی کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا جاتاہے‘برسرِ اقتدار طبقات کی آسانی کے لیے نہیں کہ وہ عوام کو کیسے لگام ڈالیں۔پاکستان کے عوام کو صرف وہی نظام قابلِ قبول ہوگا جو ان کی شخصی آزادی کا ضامن ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے