چین امریکہ تعلقات اس نہج پر کیسے پہنچ گئے

اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان تناو عروج پر ہے امریکہ نے ہیوسٹن میں چین کا قونصل خانہ بند کردیاہے تو دوسری طرف چین نے جوابی اقدام کے طور پر چین کے اندر چنگدو میں واقع امریکی قونصل خانہ بند کردیاہے ۔ ہانگ کانگ جنوبی بحیرہ چین ،تائیوان ، ہواوے ، کورونا وائرس ایسے معاملات ہیں جن پردونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ سوال یہ ہے حالات اس نہج پر کیسے پہنچ گئے ہیں ؟ اور کیا اب بھی چین اور امریکہ کے پاس تناؤ کم کرنے اور کسی محاذ آرائی سے بچنے کی گنجائش ہے؟

امریکی سیاسی اشرافیہ کہتی ہے کہ امریکہ 1970 کی دہائی کے آغاز سے ہی چین کے ساتھ اس امید کے ساتھ رابطے میں رہا کہ اس طرح کے رابطوں سے نہ صرف مارکیٹ کی معیشت آزاد ہوگی بلکہ سیاسی لبرلائزیشن بھی آئے گی۔ تاہم ،اب امریکہ مکمل مایوس ہوچکا ہے ۔

امریکہ کے اس بیانیہ کے جواب میں چین کہتاہے کہ اس طرح کا بیانیہ امریکی اشرافیہ کا خود کو تسلی دینے کیلٗے ان کا خود ساختہ خوش کن خیا ل ہی ہوسکتاہے جس کو وہ چین کی مخالفت اور مغربی دنیا کو چین کے ساتھ تصادم کیلئے متحرک کرنے کیلئے اخلاقی بنیاد کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔۔

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو چین اورامریکہ کی قربتیں اس وقت بڑھیں جب سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے 1972 میں سرد جنگ کے عروج کے دوران چین کا دورہ کیا۔ سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ چین کے قریب جانے لگا باوجود اس حقیقت کے کہ اس وقت ، چین کا مغرب کے ساتھ سخت نظریاتی تصادم تھا۔ تاہم چین اور امریکہ کے تعلقات کی افادیت نے ایشیاء پیسیفک کے خطے کے جیو پولیٹیکل ڈھانچے کو نئی شکل دی اور سرد جنگ کے رجحان کو متاثر کیا۔ اور یہی امریکہ کا مقصد تھا۔ ۱۹۷۰کی دہائی کے آخر میں چین کی اصلاحات اور کھلے پن کے بعد ، چین اور امریکہ کے درمیان وسیع پیمانے پر رابطے استوار ہوئے۔ تاہم 1980 کی دہائی کے آخر تک ، چین کے لئے امریکہ کا سب سے بڑا خیال سوویت یونین کے خلاف سودے بازی کے لئے چین کی طاقت کا استعمال ہی رہا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اور 1990 کے دہائی کے دوران ، واشنگٹن کی اسٹریٹجک توجہ سرد جنگ کے دوران اپنی کامیابیوں پرمرکوز رہی۔ اس عرصے کے دوران چین ، ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی حیثیت سے ، امریکہ کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی قدامت پسند اشرافیہ نے کبھی بھی چین سے دشمنی ترک نہیں کی ، تاہم چینی مارکیٹ کی بڑی صلاحیت نے اس طرح کی دشمنی کو شدت اختیار کرنے سے روکا۔

امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد ، امریکہ کا اپنے اندر بڑی طاقتوں کے مقابلے کا احساس پھر سے انگڑائیاں لینے لگا۔ ۔ چین کا عروج آہستہ آہستہ امریکہ کی اسٹریٹجک برداشت کی حدوں سے آگے نکل گیا ۔ اور اس وقت امریکہ کی برداشت کا پیمانہ کا لبرز ہوچکاہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کو امریکہ کا سب سے بڑا اسٹریٹجک حریف سمجھتی ہے۔ امریکہ نے چین کے ساتھ آگے بڑھنے کا جو سفر اختیار کیا تھا اب اس کی واپسی شروع ہوگئی ہے ۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے اس سے پہلے کبھی چین جیسے ملک کا سامنا نہیں کیا – ایک ایسے ملک کا جس میں تیز رفتار ترقی اور لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ واشنگٹن کے سیاسی اشرافیے مین افراتفری پھیل گئی ہے ابتدائی طور پر سرد جنگ کے ٹولز کو بروئے کار لایا جا رہاہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر اپنا تسلط برقرار رکھتا چاہتاہے چین اور امریکہ کے تعلقات میں بھی امریکہ نے اپنے تسلط پسندانہ مفادات کو مقدم رکھا ہے ، اور دونوں ممالک کے وسیع معاشی مفادات کوپس پشت ڈالا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا امریکہ اچانک بیسویں ویں صدی میں واپس چلا گیا ہے۔

دوسری جانب چین کو بھی امریکہ جیسی بڑی طاقت کے ساتھ اس طرح ٹکرانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ چین کبھی جارح نہیں رہا۔ کئی دہائیوں سے چین کی توجہ کا مرکز اپنا اندرونی استحکام اورترقی رہا۔ چین کا مطمع نظر اپنے عوام کو غربت سے نکال کر ترقی کے راستے پر ڈالنارہا۔ اس سال چین غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرلے گا۔ چین ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ترقی کر رہا ہے ، ترقی کے پیچھے بڑی خواہش چینی عوام کی غربت سے نجات اور خوشحالی ہے۔چین کا کبھی یہ مطمع نظر نہیں رہا کہ امریکہ کا تختہ الٹایا جائے یا امریکہ کا مقابلہ کیا جائے ۔ چین کی عسکری صلاحیت میں اضافہ چین کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک خطرات اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اس کی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے۔ چین اب بھی اسٹریٹجک لحاظ سے دفاعی ملک ہے جس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں ۔ چین نے اپنے وسیع انسانی وسائل سے معاشی ترقی کے حصول کیلئے خوب استفادہ کیا ہے ۔ جس سے چین کے اندر لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے اور لوگوں کے اطمینان کے احساس میں بھی اضافہ ہواہے ۔ چین کر ترقی اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ چین کے بنیادی مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے عالمی ترتیب نو کے چین کے کوئی ارادے نہیں ہیں۔

امریکہ نے چین کے اسٹریٹجک مقاصد کو غلط سمجھاہے۔ چین ایک بہت بڑا معاشرہ ہے ، اور داخلی معاملات ملک کی حکمرانی کا مرکز ہیں۔ چین کی حکمران جماعت چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) وہ بنیادی طاقت ہے جو چینی عوام کی مشکل کاموں کی تکمیل میں رہنمائی کرتی ہے۔ 2012 میں منعقدہ سی پی سی کی 18 ویں نیشنل کانگریس کے بعد سے ، انسداد بدعنوانی مہم نے طرز حکمرانی کو خاصی حد تک تبدیل کردیاہے ، چین نے دیہی علاقو ں کو ترقی دی ہے شفافیت اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے ۔ کووڈ ۱۹ پر موثر اقدامات کے ذریعے قابو پا یا ہے۔ کہا جاسکتاہے کہ اس وقت چین کے اندر سیاسی استحکام بہت مضبوط ہے۔

ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے پاس آج کے مضبوط چین کو کچلنا یا اپنے تابع کرنا بہت مشکل ہے ۔ چین پہلے ہی کافی طاقت ور ہے تاہم کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا۔ یہ درست ہے کہ چین کے نظریات کچھ مغربی ممالک سے مختلف ہیں ، لیکن چین نفرت کے بیج نہیں بوتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو چین مخالف کیمپ بنانے کی کوشش کرتے وقت مزاحمت کا سامنا ہے ۔ اب اکیسویں صدی چل رہی ہے پچھلے بیس سالوں مین دنیا نے ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی کی ہے اس کی وجہ سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ محاذ آرائی ختیار کرنا آسان نہیں رہا چین ایک بہت بڑی حقیقت ہے چین کی عالمی حیثیت اوراکیسویں صدی کے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کیلئے چین کو قابو کرنا بہت مشکل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے