قانون سازی: کچھ لو اور کچھ دو کی متقاضی

سینٹ اور قومی اسمبلی کے جو اجلاس پیر سے شروع ہوئے ہیں ان کے دوران اہم قانون سازی متوقع ہے۔ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا کو اگرچہ قانون سازی کے عمل میں خاص دلچسپی نہیں۔عوام کو مثال کے طورپر سادہ زبان میں سمجھایا نہیں جارہا کہ FATFکی بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کتنے اور کونسے قوانین کی ضرورت ہے۔ان قوانین کی منظوری کے بعد شروع ہوا عمل ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔

’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف برپا جنگ کو شدید تر بنانے کی جدوجہد میں مصروف حق گو صحافی اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے بنیادی پیغام فقط یہ دے رہے ہیں کہ ’’وسیع تر قومی مفادمیں‘‘ پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ سے باہر نکالنے کو یقینی بنانے والے قوانین اپوزیشن کی وجہ سے منظور نہیں ہورہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتوں میں موجود ’’ذہنی غلام‘‘ بلکہ ان کی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت کو بلیک میل کرناشروع ہوگئے ہیں۔ تقاضہ ہورہا ہے کہ اگر مذکورہ قوانین کو سرعت سے منظور کروانا ہے تو نیب کے قوانین میں نرمی لائی جائے۔مطلوبہ نرمی مگر لائی گئی تو قوم کی لوٹی ہوئی دولت کاحساب نہیں ہوپائے گا۔عمران خان صاحب کا بنیادی منشور جبکہ ’’کڑا اور بے رحم‘‘ احتساب تھا۔

وہ نرمی دکھانے کو تیار نہیں ہورہے۔ ’’کپتان‘‘ اپنے ہدف پر ڈٹا ہوا ہے۔ان پر دبائو بڑھایا گیا تو قومی اسمبلی کی تحلیل سے بھی گریز نہیں کریں گے۔اس کے نتیجے میں یقینا نئے انتخاب ہوں گے۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان صاحب لوگوں کو بتائیں گے کہ ’’مافیا‘‘ کے لمبے ہاتھ انہیں اب تک کیسے کھل کر نہیں کھیلنے دے رہے تھے۔ وہ کونسے قوانین ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مہنگے ترین وکیل اپنے مؤکلوں کی عدالتوں سے ضمانتیں کروالیتے ہیں۔’’تاریخ پر تاریخ‘‘ لیتے ہوئے احتساب بیورو کی جانب سے دائر ہوئے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہونے دیا جاتا۔ عمران حکومت ان قوانین کو اپنے تئیں ختم نہیں کرسکتی۔ قومی اسمبلی میں اسے معمولی اکثریت حاصل ہے۔اسے برقرار رکھنے کے لئے گجرات کے چودھریوں جیسے ’’اتحادیوں‘‘ کے نخرے اٹھانا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجبوری یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اس وقت تک کوئی نیا قانون متعارف ہی نہیں کروایا جاسکتا جب تک کہ وہ قومی اسمبلی کے علاوہ سینٹ سے بھی منظور نہ ہوجائے۔سینٹ میں لیکن عمران حکومت کو اتحادیوں کی تمام تر حمایت کے باوجود سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں۔

ایسے حالات میں بے چارے عمران خان کرپشن کے خلاف بھرپور جنگ لڑنہیں سکتے۔ وہ ذاتی طورپر ایمان دار اور پُرخلوص ہیں۔وزیر اعظم کا منصب سنبھالے ہوئے انہیں دو برس ہونے والے ہیں۔اس دوران کوئی ایک ’’خبر‘‘ بھی ایسی نہیں آئی جو ثابت کرے کہ ان کی حکومت کے کسی فیصلے سے انہوں نے ذاتی فائدہ اٹھایا۔ وہ کسی کاروبار سے کبھی وابستہ ہی نہیں رہے۔ ان کے خاندان کا کوئی فرد بھی کاروباری نہیں ہے۔عمران خان صاحب کے مخالفین کو ان کی ذات کے خلاف جب کچھ نہ ملا تو یہ کہانی پھیلانا شروع کردی کہ ان کی حکومت کے کئی فیصلوں نے ان کے ’’دوستوں‘‘ کو بے تحاشہ مالی فوائد پہنچائے ۔ ان ’’دوستوں‘‘ میں سے چند بطور مشیر کابینہ کا حصہ بھی ہیں۔حکومت کی معاشی فیصلہ سازی میں حتمی کردار کے حامل ہیں۔اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے وزیر اعظم نے ’’شوگر مافیا‘‘ کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ ان تحقیقات نے کئی برسوں تک عمران خان صاحب کے قریب ترین تصور ہوتے جہانگیر ترین صاحب کو مذکورہ مافیا کا اہم ترین سرغنہ قرار دیا۔ چودھری برادران اور مخدوم خسروبختیار بھی ان تحقیقات کی زد میں آئے۔وزیر اعظم نے مگر تحقیقاتی رپورٹ کو برسرعام لانے کا ’’تاریخی‘‘ فیصلہ کیا۔ ان کے ہاتھ صاف نہ ہوتے تو یہ فیصلہ کیوں کرتے؟

ان تمام دلائل سمیت اپنی کرشماتی شخصیت کے ساتھ عمران خان صاحب اگر نئے انتخابات کی مہم میں اترے تو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں دوتہائی نہ سہی مگر توانا اکثریت تو حاصل ہوجائے گی۔مذکورہ دلائل کے ساتھ جو کہانی سنائی جاتی ہے میں اسے بہت غور اور احترام سے سنتا ہوں۔بحث کی عادت عرصہ ہوا میری جند چھوڑچکی ہے۔یہ حقیقت یاد دلانے کو لیکن مجبور ہوجاتا ہوں کہ مؤثر قوانین کے نفاذ کے لئے محض قومی اسمبلی میں اکثریت ہی کافی نہیں۔ ’’چوروںاور لٹیروں‘‘ کی پکڑ کو یقینی بنانے کے لئے سینٹ میں اکثریت بھی درکار ہے۔اس ایوان کی آدھی نشستیں نوماہ بعد خالی ہوں گی۔

پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت جو تحریک انصاف کی عددی طاقت ہے اسے ذہن میں رکھیں تو شاید تحریک انصاف زیادہ نشستیں جیت لے گی۔ سادہ اکثریت مگر اس کے بعد بھی نصیب ہونا ممکن نہیں۔بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی جسے ’’باپ‘‘کہا جاتا ہے مزید طاقت ور ہوکر ابھرے گی۔سندھ کی زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی ہی کے حصے میں آئیں گی۔نواز شریف کی مسلم لیگ کو البتہ کافی نقصان ہوگا۔ میرے بتائے منظر کو کافی بے صبری سے سن لینے کے بعد برجستہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دائمی مسائل کو واقعتا حل کرنا ہے تو وطنِ عزیز میں ’’صدارتی نظام‘‘ کا نفاذ ضروری ہے۔عمران حکومت کے بااثر افراد سے مسلسل رابطے میں رہنے والے بلکہ یہ اطلاع بھی دیتے ہیں کہ پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام لانے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ مجھ ’’لفافہ صحافی‘‘ کو مگر یہ بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ محض اصرار ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ’’فیصلہ‘‘ ہوچکا ہے۔

یہ اطلاع دینے کے بعد یاد یہ بھی دلایا جاتا ہے کہ جب ’’فیصلہ‘‘ ہوجائے تو اس پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ نظام کہنہ سے جڑے مجھ جیسے بوڑھے اور ریٹائر ہوئے صحافی اس حقیقت کو دیکھ نہیں پاتے۔ ’’لفافوں‘‘ نے ہماری بصیرت ویسے بھی مفلوج بنادی ہے۔ خلقِ خدا ہماری ’’فراست‘‘ کی اوقات جان چکی ہے۔ہم میں سے جو لوگ پرنٹ صحافت سے ٹی وی سکرینوں کی جانب منتقل ہوئے تھے بالآخر اپنے اداروں پر ’’معاشی بوجھ‘‘ بن گئے۔ ہر کاروباری ادارہ منافع کو یقینی بنانے والی صلاحیت سے محروم کارندے کو فارغ کردیتا ہے۔ ہم بے روزگار ہوئے تو خود کو مظلوم ثابت کرنے کے ڈرامے لگانا شروع ہوگئے۔ فواد چودھری صاحب بطور وزیر اطلاعات جبکہ عوام کو بخوبی سمجھاچکے ہیں کہ صحافت میں کامیاب ہونے کا ’’بزنس ماڈل‘‘ کیا ہے۔موصوف کو مگر کامیاب تصور ہوئے اس ’’بزنس ماڈل‘‘ کا پاکستان ٹیلی وژن پر اطلاق کا موقعہ میسر نہیں ہوا۔ انہیں موقعہ ملتا تو سرکاری نگرانی میں چلایا پی ٹی وی جدید صحافت کے لئے قابل تقلید مثال شمار ہوتا۔

مزید زیادتی اب ان کے ساتھ یہ بھی ہوگئی ہے کہ مفتی منیب صاحب نے اپنی طے شدہ تاریخ پر قوم کو عیدالاضحی منانے کو آمادہ کرلیا ہے۔چودھری صاحب جبکہ ’’سائنسی بنیادوں‘‘پر ایک اور تاریخ دے چکے تھے۔ ان کی بتائی تاریخ عیدالفظر کے ضمن میں کامران ٹھہری۔اب کی بار مگر ’’بکری‘‘ ہوگئی۔چودھری صاحب کی روشن خیالی کے گرویدہ خواتین وحضرات اس امر پر کافی اداس ہیں۔مفتی منیب الرحمن اور ان کی رویت ہلال کمیٹی کا مگر کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جلے بھنے ٹویٹ لکھ کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔بہرحال پیر کے دن سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو اجلاس شروع ہوئے ہیں وہاں اہم ترین قانون سازی ہونا ہے۔قانون سازی دُنیا بھر کی پارلیمانوں میں حکومتوں اور اپوزیشن سے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ والے رویے کا تقاضہ کرتی ہے۔اپوزیشن کا حال تو پہلے ہی ’’ہم لٹ بھی چکے،مرچکے‘‘والا ہوچکا ہے۔اس شعر کو لکھنے والے نے فریاد اس کے بعد یہ کی تھی کہ یہ واقعہ ہونے کے بعد ’’محبت‘‘ کو اس سے ’’وہی انداز پرانے‘‘ کا تقاضہ نہیں کرنا چاہیے۔اب کی بار تھوڑی ’’فیاضی‘‘ عمران حکومت ہی کو دکھانا ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے