بی بی سی کی جھوٹی کہانی

قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام پر بہت سا مستند مواد چھپ چکا ہے لیکن بار بار اس سے صرف نظر کر کے افسانے گھڑ لئے جاتے ہیں اور قوم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام سازش اور حکومتی بے اعتنائی کا شکار تھے۔ اس ضمن میں محترمہ فاطمہ جناح، مادر ملت، کے حوالے سے ایک فقرہ بار بار کوٹ کیا جاتا ہے جسے ہمارے دانشوروں نے بلاتحقیق قبول کر کے ایک گہری سازش کا رنگ دے دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے زیارت میں قائد اعظم کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی آمد کی اطلاع دی تو قائد اعظم نے جواباً کہا کہ وہ یہ دیکھنے آ رہے ہیں کہ میں کتنے دن مزید زندہ رہوں گا۔ پہلی بات تو نوٹ کر لیں کہ ’’مائی برادر‘‘ نامی کتاب مادر ملت نے خود نہیں لکھی تھی۔ یہ مسودہ جی الانہ نے لکھا تھا جنہوں نے مادر ملت سے ملاقاتیں کر کے نوٹس لئے اور پھر ان کی مدد سے یہ مسودہ تیار کر کے مادر ملت کو دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مادر ملت اس مسودے سے مطمئن تھیں تو انہوں نے اِسے کتابی صورت میں چھاپا کیوں نہیں؟ یہ مسودہ دہائیوں تک اُن کے کاغذات میں کیوں پڑا رہا اور پہلی بار ان کی وفات کے بعد کاغذات کی چھان بین کے دوران ہاتھ لگا؟ جس مسودے کو قائد اعظم اکادمی نے پروفیسر شریف المجاہد کی زیر نگرانی چھاپا اُس میں تو یہ فقرہ موجود نہیں لیکن جس مسودے کو پبلشر نے چھاپا اُس میں یہ فقرہ موجود ہے۔ میری اس حوالے سے پروفیسر شریف المجاہد صاحب سے تفصیلی بات ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری تحقیق کے مطابق یہ بات سچ نہیں اور نہ ہی ایسی کسی بات کا سراغ عینی شاہدین کی تحریروں سے ملتا ہے۔ دوم وزیر اعظم کے پروگرام کی اطلاع قائد اعظم کو اے ڈی سی نے دی تھی نہ کہ مادر ملت نے۔ خیال یہ تھا کہ یہ کارنامہ جی الانا صاحب کا ہے جو بوجوہ لیاقت علی خان سے ناراض تھے۔ جہاں تک میری طالب علمانہ رائے کا تعلق ہے مجھے یہ بات صحیح نہیں لگتی کیونکہ اول تو اس طرح کی غیرمعیاری سازشی بات قائد اعظم کے مزاج کے منافی ہے، دوم سارے دستیاب اور معتبر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے تعلقات دوستانہ تھے، سوم قائد اعظم لیاقت علی خان کے راستے کا کانٹا تھے نہ اُن کے لئے کوئی خطرہ تھے کہ وہ اُن کی موت کا انتظار کرتے۔

سوشل میڈیا جھوٹ کی دکان ہے لیکن مجھے بی بی سی کی اسٹوری ’’14جولائی۔ 11ستمبر، محمد علی جناح کے آخری ایام‘‘ نے اس وضاحت پہ مجبور کیا کیونکہ بی بی سی کا اپنا مقام ہے لیکن افسوس کہ بی بی سی کی یہ کہانی دلچسپ غلطیوں اور غیرمصدقہ مواد سے بھری ہوئی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے میں ٹھٹھک گیا کیونکہ درمیان میں ایک تصویر سجائی گئی ہے جس کے نیچے لکھا ہے 15اگست 1947ء کو قائد اعظم دستور ساز اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں حالانکہ پندرہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہی نہیں ہوا تھا۔ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے بار بار احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے تحقیق کی بجائے سنی سنائی باتوں پر تکیہ کیا ہے۔ مثلاً مصنف لکھتا ہے 14جولائی 1948ء کو کوئٹہ سے زیارت جانے کا مشورہ کس نے دیا؟ مادر ملت کے علاوہ قائداعظم کے معالجین نے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ قائد اعظم کا اپنا تھا جس میں ہماری مشاورت شامل تھی۔ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ جولائی کے آخر میں وزیر اعظم لیاقت علی اور سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی بغیر اطلاع پہنچ گئے۔ اے کاش اس کہانی کے مصنف زحمت فرما کر قائد اعظم کے اے ڈی سی کیپٹن (بعد ازاں بریگیڈیئر) نور حسین کے مضامین، انٹرویوز اور میرے چند ایک کالم پڑھ لیتے جن میں کیپٹن صاحب نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم اور سیکرٹری جنرل کی آمد کی خواہش بذریعہ ملٹری سیکرٹری براہ راست انہیں ملی تھی کیونکہ وہی اے ڈی سی آن ڈیوٹی تھے۔ ’’پھر میں نے ہی وزیر اعظم کی خواہش کی اطلاع قائد اعظم کو دی اور اُنکی منظوری کے بعد ملٹری سیکرٹری کو کراچی میں اطلاع دی۔ جس دن اُنہیں آنا تھا اس روز قائد اعظم نے مجھ سے اُنکے بارے میں ایک دو بار پوچھا جیسے وہ اُنکے منتظر ہوں۔ اس روز خلاف معمول کھانے کا مینو بھی قائد اعظم نے خود منظور کیا۔ میں ہی وزیر اعظم اور سیکرٹری جنرل کو قائد اعظم کے کمرے میں لے کر گیا۔ شدید کمزوری اور علالت کے باوجود قائداعظم نے بازو اٹھا کر محبت سے اُن کا استقبال کیا۔ نصف گھنٹے کے بعد چوہدری محمد علی نیچے ہمارے کمرے میں آ گئے اور کچھ دیر بعد وزیراعظم بھی آ گئے۔ وزیر اعظم، قائد اعظم کی علالت کے حوالے سے نہایت متفکر تھے اور کرنل الٰہی بخش سے غیرملکی ڈاکٹر اور دوائیاں وغیرہ منگوانے کی باتیں کرتے رہے۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لائیں اور ہم نے کھانا مل کر کھایا۔ کرنل الٰہی بخش نے بھی لکھا ہے کہ وزیر اعظم بہت فکرمند تھے اور بار بار کہتے رہے کہ ہمیں ان کی زندگی حد درجہ عزیز ہے، علاج میں کوئی کسر باقی نہیں رہنی چاہئے۔‘‘ یہ ایک ذمہ دار اے ڈی سی کا بیان ہے جو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے۔

بی بی سی کی کہانی میں بہت سی فروعی، بے بنیاد اور سنسنی خیز باتیں شامل ہیں۔ بمبئی کے ہندو ڈاکٹر پٹیل کے حوالے سے ’’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘‘ نے جس کہانی کو اچھالا تھا وہ بھی تحقیق سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پٹیل نے قائد اعظم کو ٹی بی کا بتایا تھا تو وہ کوئٹہ اور زیارت میں اپنے پاکستانی معالجین سے کیوں اصرار کرتے رہے کہ انکا صرف معدہ خراب ہے؟ وہ اپنے معالج کرنل الٰہی بخش یا ڈاکٹر ریاض کو اصل بیماری بتا سکتے تھے۔ ڈاکٹر پٹیل کے ایکسرے اور بیماری کے راز کی ساری کہانیاں محض رنگین افسانے ہیں کیونکہ قائد اعظم کو اپنی اصل بیماری کا علم ہی نہیں تھا۔ اسی طرح یہ بھی جھوٹ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان 11ستمبر کو قائد اعظم کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہیں آئے۔ اسکے باوجود کہ قائداعظم کی آمد کو پرائیویٹ رکھا گیا تھا لیاقت علی خان ہوائی اڈے پر آئے اور جب ایمبولنس خراب ہوئی تو دوسری ایمبولنس آنے تک وہ وہیں موجود رہے۔ ایمبولنس کی خرابی نے لکھاریوں کو سنسنی پھیلانے کے لئے خاصا مواد مہیا کیا ہے حالانکہ یہ غلطی انگریز ملٹری سیکرٹری کرنل نوئلز کی تھی جس نے ڈاکٹر رحمٰن کے مشورے سے کراچی میں دستیاب ایمبولینسیں منگوا کر بہترین کا انتخاب کیا تھا اور دوسری ایمبولینس ساتھ نہیں بھجوائی تھی۔ گزارش ہے کہ اب 72برس بعد قائد اعظم کی قدرتی وفات کو سنسنی خیز افسانوں کا موضوع بنانا چھوڑ دیجئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے