پر قفس صحافت ، مجبور صحافی

بصحافت یا صحافی کسی ملک یا معاشرے کے لئے ازحد ضروری ہوا کرتے ہیں ،ایسا ہم نے دوران زمانہ طالب علمی پڑھا تھا، بڑوں سے بھی سنا تھا کہ جمہوریت کے حسن کو نکھارنے کے لئے آزاد صحافت بہت لازم ہے، لیکن اب شاید صحافیوں کی ضرورت میرے وطن عزیز میں نہیں ہے۔

25 جولائی 2018 سے پہلے سبھی صحافی خواہ وہ بڑے تھے یا چھوٹے سبھی نئی آنے والی حکومت کے حوالہ سے جانتے تھے یا بتا دیا گیا تھا کہ اس بار تبدیلی لائی جا رہی ہے، ہم نے الیکشن کور کئے ہم سے مراد میں اور میرے ساتھی رپورٹرز ہیں، جو مختلف ٹی وی چینلز میں مختلف شہروں میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے، بڑے پرجوش تھے ہم کہ حالات بہتر ہو جائیں گے ، مگر ہم نہ رہے۔

آجکل فراغت ہی فراغت ہے، دو تین روز قبل سوشل میڈیا سکرولنگ کے دوران میں نے اپنے دوست عبداللہ کو ایک بریانی کے ٹھیلے پہ بریانی پیک کرتے گاہک کو بقایا پیسے دیتے دیکھا ۔

کہانی سننے سے پہلے عبداللہ عمار خان نیازی کا مختصر تعارف پڑھ لیجے، عبداللہ میانوالی کا رہائشی ہے عمران خان کے حلقہ میں اسکا گھر ہے، عبداللہ نے 2015 میں میری ہی طرح بی ایس آنرز ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی، سرگودھا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عبداللہ نے حصول روزگار کے لئے لاہور کا رخ کیا، دنیا ٹی وی، سٹار ایشیا نیوز، جی این این سے ایکسپریس نیوز جہاں کا میں بھی سابق ایمپلائے ہوں، پھر نیو ٹی وی اور لاہور رنگ میں کام جاری رکھا ۔

اسکے بعد موجودہ حالات میں جو طریقہ واردات تبدیلی حکومت کے آنے کے بعد چینل انتظامیہ نے مالکان کے کہنے پر اپنایا، عبداللہ کے ساتھ بھی وہی ہوا کورونا کو جواز بنا کر پہلے کہا گیا کہ ہم ملازمین کو لانگ لیو یعنی بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج رہے ہیں، پھر ایک دن ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے عبداللہ کو نوکری سے نکالے جانے کی کال موصول ہو گئی ۔

یہ جولائی 2020 کے دوران ہی ہو گیا پھر روزگار کے حصول کے لئے عبداللہ نے لاہور ہی میں بریانی کا ٹھیلا لگا لیا، دل دیکھ کر پھٹا بھی اور فخر بھی ہوا کہ نوجوان نے ہمت نہیں ہاری ۔

یہ الفاظ صرف عبداللہ کے لئے نہیں ہیں ان تمام ورکر صحافیوں کے لئے ہیں ،جو اس تبدیلی کا شکار ہوئے ہیں، ان میں بنفس نفیس میں خود شامل ہوں ۔

عبداللہ عمران خان کے حلقہ کا رہائشی ہے چند روز پہلے تک میری طرح یہ بھی ایک صحافی تھا، عبداللہ کو میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں، محنتی رپورٹر ہے اور اپنے کام سے عشق کرنے والا نوجوان ہے ، فجر فاروق کی سٹوری جس پہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوٹس لیا تھا، عبداللہ کی بریک کی ہوئی سٹوری تھی۔

آج عبداللہ بیروزگاری سے تنگ آکر بریانی کا ٹھیلا چلا رہا ہے ، عزم و ہمت کی کہانی انوکھی نہیں، لیکن دلخراش ضرور ہے عبداللہ عمران خان کا سخت سپورٹر تھا ، عمران خان کے ساتھ اسکی سیلفیاں موجود ہیں ، عمران خان اسے شاید جانتا بھی ہے، لیکن اسی عمران خان کی حکومت میں عبداللہ جیسے ہزاروں صحافی اور لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار ہیں ۔

میں نے خود بیروزگاری کے دنوں میں ماسک بنا کر مزدوری کی ہے، محنت میں عار نہیں لیکن یہ کیسا نیا پاکستان ہے؟؟؟؟؟

صحافیوں کے حالات بلاشبہ دگرگوں ہیں، آج کے وقت میں صحافی یا تو فصیح الرحمان، سردار جہانزیب بن کر زندگی سے منہ موڑ جاتے ہیں یا پھر انور کھیتران یا عزیز میمن بن کر قتل ہو جاتے ہیں، جو بچ جاتے ہیں وہ امنان اور عبداللہ عمار نیازی بن جاتے ہیں ۔

بے شمار دوست ہیں ، جو کل تک صحافت کا سہرا باندھے عوامی خدمت کو مقصد بنائے، موسم کی سختیاں سہتے میدان عمل میں تھے، یہ سب ہزاروں کی تعداد میں ہیں ، عبداللہ کے ساتھ میں ان ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کا نوحہ لکھنا چاہتا ہوں، کیونکہ ہم ورکرز آپس میں ایک دوسرے کا سہارا ہیں ۔

یہ تو ہم چھوٹے صحافیوں کی داستانیں ہیں ، بڑے صحافیوں کو اس سب سے سروکار نہیں، میڈیا تنظیمیں اور چینل مالکان سمیت کسی کو اس سب سے سروکار نہیں ۔

عام آدمی کی سن لیجئیے ہم تو زندہ ہیں، عام آدمی ضلع نارروال کی تحصیل ظفروال گاوں وریام میں قدیر غربت اور فاقہ کشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر 3 بچوں سمیت زہر کھا لیتا ہے، خود زندگی سے آزاد ہو گیا، اسکے بچے زندگی و موت سے لڑ رہے ہیں، یہ واقع 24 جولائی کا ہے اور ریاست مدینہ ثانی میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔

اسی علاقے سے ایم این اے مہناز اکبر عزیز، ایم پی اے پیر سعید الحسن اور ایم این اے وجیہہ اکرم ہیں لیکن کیا ہوا غریب مر گیا مر گیا، باقی بھی مر جائیں گے۔

صحافی اس معاملے میں سخت جان ثابت ہوئے ہیں، یہ سب کے لئے بولتے ہیں لکھتے ہیں لیکن اپنا درد کسی سے نہیں کہہ پاتے ، یہ سخت جان ہیں اور بے بس ہیں عام آدمی اور صحافی کیڑے مکوڑے سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں ہیں ۔

عبداللہ کی آنکھوں میں نوکری چلے جانے کے بعد حسرت و یاس کے ساتھ گلہ تھا، اس عمران خان سے جسکا وہ سخت سپورٹر تھا، لیکن عمران خان کو اس سے فرق نہیں پڑتا، وہ گھر کے کفیلوں سے نوکری چھن جانے کا دکھ نہیں جانتا، کیونکہ اسکی نوکری کسی نے چھینی نہیں ۔

اس حکومت نے 2019 میں اگست کے مہینے میں صنعتکاروں کو 208 ارب روپے معاف کر دئیے تھے، بے شمار نوکریاں دینے کا دعوی کیا تھا، لیکن ہم سے نوکریاں چھین کر ہمیں یہ پیغام دیا گیا کہ تم لوگوں کی کیا حیثیت ہے، تم لوگ صحافی ہو گھٹ گھٹ کر جینا تمہارا مقدر ہے۔

عبداللہ سے میری بات ہوئی تو اس نے کہا یار میں نے کبھی کسی رپورٹ کے پیسے پکڑے ہوں یا کوئی کرپشن کی ہو کبھی لفافہ پکڑا ہو تو میں سمجھ سکتا تھا کہ نوکری کیوں گئی لیکن یہ سب سمجھ سے باہر ہے ۔

عبداللہ بلاشبہ ایک روشن مثال ہے، صحافتی صفوں میں جتنے بھی پیراشوٹر یا درباری ہیں، انکے منہ پر عبداللہ ایک زور دار تمانچہ ہے، عبداللہ تمانچہ ہے، اس ملک کے حکمرانوں کے منہ پر ، چینل مالکان اور نام نہاد صحافتی تنظیموں کے منہ پر ، عبداللہ جیسے ہزاروں صحافی بیروزگار ہیں، صحافت کی حالت پتلی ہے، بولنے اور سوچنے والے صحافی زیر عتاب ہیں اور سب خاموش ہیں ، لیکن ہم نوجوان صحافی ایک دوسرے کو یہ کہہ کر ہمت بندھا رہے ہیں کہ یار اچھا وقت آئے گا ضرور آئے گا ۔

سوچئیے یہ حکومت کسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے، صحافیوں کی یہ حالت ہے اس ملک میں تو عام آدمی کس کرب سے گذر رہا ہو گا ، اسکا اندازہ لفظوں میں لگانا ممکن نہیں اور ظاہری فوٹو بازیوں ٹویٹوں اور خالی پلاؤ بنانے سے تبدیلی ممکن نہیں۔

نئے پاکستان کی تعمیر میں جو گناہ ہم سے ہوئے خدائے واحد ہمارے ان گناہوں کو معاف فرما دے بس یہی دعا ہے۔

ریاست کہاں ہے؟؟ کہیں بھی تو نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے