تم آزاد نہیں ہو!

آج صبح جب الف نے اپنے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی تو اُس سے اٹھا نہیں گیا، اسے لگا جیسے اُس کے پیروں کو کسی نےرکھا ہے۔ اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو کہ وہ مکمل بیداری کی حالت میں ہے یا کوئی خواب کی کیفیت ہے۔ سامنے دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی سات بجا رہی تھی، وہ عموماً اِس وقت تک اٹھ جایا کرتا تھا، سو یہ خواب تو نہیں ہو سکتا، اُس نے سوچا۔ رات وہ جلد سو گیا تھا اِس لیے نیند پوری نہ ہونے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ یوں بھی صبح کے وقت بندہ خود کو ہشاش بشاش ہی محسوس کرتا ہے بشرطیکہ اُس نے رات کو کوئی ڈراؤنا خواب نہ دیکھا ہو۔ یکایک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اُس کے ذہن میں لپکا، کہیں وہ بھی کافکا کے گریگر سمسا کی طرح کوئی موذی کیڑا تو نہیں بن گیا، اُس نے خوف سے جھرجھری لی اور ہڑبڑا کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا، اُس کا بدن کسی کیڑے کا نہیں تھا، وہ ابھی تک انسان ہی کی جُون میں تھا، اُس کی کچھ جان میں جان آئی اوردل ہی دل میں وہ اپنے اِس احمقانہ خیال پر شرمندہ بھی ہوا مگر پھر یہ ٹانگوں میں سنسناہٹ اور جسم میں درد کیسا ہے، عجیب سا درد تھا، وہ اسے کوئی نام نہ دے سکا۔

اب کی بار الف نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی تو کامیاب ہو گیا مگر پھر یکدم خوف سے کانپ اٹھا۔ کسی نے اُس کے دونوں پیروں میں کڑا ڈال کر انہیں زنجیر سے باندھ دیا تھا اور زنجیر کا دوسرا سرا اُس کے کمرے کی کھڑکی سے باہر تھا۔ وہ فوراً کھڑکی کی طرف لپکا تاکہ جان سکے کہ زنجیر کا دوسرا سرا کس کے ہاتھ میں ہے مگر اُس کی نظریں زنجیر کا تعاقب نہ کر سکیں، زنجیر دیوار کے ساتھ ساتھ مُڑتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ الف نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا، دونوں پیر زنجیر میں جکڑے ہوئے ضرور تھے مگر وہ کمرے میں با آسانی چل پھر سکتا تھا۔ اُس نے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ باہر سے مقفل تھا۔ وہ چکرا کر رہ گیا۔ کسی نے اسے اُس کے ہی کمرے میں قید کر دیا تھا۔

الف کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے، اچانک اسے خیال آیا کہ اُس کا فون کہاں ہے، اُس نے بیڈ کے ساتھ دَھری میز کا دراز کھولا اور پھر ایک گہری سانس لی، فون وہاں موجود تھا۔ اُس نے جلدی سے اپنے ایک دوست کا نمبر ملایا جو اُس کے ساتھ دفتر میں کام کرتا تھا، وہ شاید ابھی تک نیند میں تھا، بدقت تمام الف نے اسے بیدار کیا اور اچھی طرح ہوش میں لانے کے بعد بتایا کہ کیسے وہ صبح سے اپنے گھر میں مقید ہے۔ الف کا خیال تھاکہ اُس کا دوست یہ عجیب و غریب روداد سُن کر حیران پریشان ہو جائے گا مگر خود الف کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اُس کے دوست نے پوری بات تحمل سے سُنی مگر کسی خاص تعجب کا اظہار نہیں کیا۔ ’’کیا تمہیں میری قید پر حیرانی نہیں ہوئی؟‘‘ الف نے پوچھا ’’یہ قید نہیں ہے‘‘ کچھ توقف کے بعد اُس کے دوست نے جواب دیا ’’یہ تو بس ذرا سی بندش ہے‘‘۔ الف کا دماغ گھوم گیا، اُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اِس بات کا کیا جواب دے۔ اِس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا، اُس کے دوست کی آواز آئی ’’تم میرا انتظار کرو، میں تھوڑی دیر میں تمہارے پاس پہنچتا ہوں، پھر بات کرتے ہیں‘‘۔ فون بند ہو گیا۔

الف نے گھڑی دیکھی، آٹھ بج رہے تھے، باہر گلی میں لوگوں کی چہل پہل کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں، زندگی میں پہلی مرتبہ اُسے یہ احساس ہوا کہ یہ لوگ جو آزادانہ باہر گھوم پھر رہے ہیں کس قدر خوش قسمت ہیں۔ اگر اُس کی یہ بیڑیاں نہ کھلیں تو کیا وہ تمام عمر ایسے ہی گزار دے گا؟ یہ سوچ کر ہی وہ لرز اٹھا۔ اُس نے ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے جھانک کر اپنی زنجیر کا سرا دیکھنا چاہا مگر پہلے کی طرح ناکام رہا۔ وہ تھک کر بستر پر بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دبانے لگا جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔

اُس نے بہت سوچا کہ آخر اِس عجیب و غریب حرکت کی کیا توجیہہ ہو سکتی ہے مگر اُس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور اُسے اپنے دوست کی آواز آئی ’’دروازہ کھولو‘‘۔ الف فوراً دروازے کی طرف لپکا مگر پھر ٹھٹک کر رہ گیا، دروازے کو اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی، صبح بد حواسی کے عالم میں اسے یہ خیال ہی نہیں آیا کہ دروازہ باہر سے نہیں اندر سے بند تھا، اُس نے چٹخنی نیچے کی اور دروازہ کھول دیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی الف کے دوست نے سر سے پیر تک اُس کا جائزہ لیا اور پھر ایک اچٹتی سی نظر کمرے پر ڈالی۔ فوراً ہی اسے پتا چل گیا کہ الف کے پیروں کی زنجیر کھڑکی سے باہر جا رہی ہے۔ ’’کیا تم نے اِس زنجیرکو کھینچنے کی کوشش کی؟‘‘ دوست نے پوچھا۔ ’’نہیں‘‘ الف نے جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیا ’’میں اسے کھینچ کر کیا کرتاجب میرے پیر ہی آزاد نہیں!‘‘ دوست نے الف کی بات سنی ان سنی کر دی اور کھڑکی سے زنجیر کھینچنا شروع کی، تھوڑی ہی دیر میں زنجیر کا دوسراسرا اُس کے ہاتھ میں تھا، یہ زنجیر کسی چیز سے نہیں بندھی تھی۔ الف نے حیر ت سے اپنے دوست کی طرف دیکھا جیسا پوچھنا چاہ رہا ہو کہ یہ سب کیا ہے! ’’تم شاید اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘ دوست نے پوچھا۔

الف کی زبان گنگ تھی، اسے کسی بات کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی، وہ بس ہونقوں کی طرح اپنے دوست کا منہ تک رہا تھا۔ اُس کے دوست نے بات جاری رکھی ’’یہ زنجیریں نئی نہیں ہیں، اکثر یہ اُن لوگوں کو پہنائی جاتی ہیں جو باغیانہ خیالات رکھتے ہیں، ملک کے دور دراز علاقوں میں تو یہ عام بات ہے، بلکہ وہاں تو یہ زنجیریں بہت موٹی ہوتی ہیں، آدمی چل پھربھی نہیں سکتا، تم تو شکرکر و کہ نہ صرف تمہارے پیر کی زنجیر ایسی آرام دہ تھی کہ تم چل پھر سکتے تھے بلکہ اس کا دوسرا سرا تو انہوں نے کسی آنکڑے میں ڈالا ہی نہیں تھا، غالباً تم یونہی شک کی زد میں آ گئے، عیش کرو، اب تم آزاد ہو‘‘۔ الف کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ اِس بات کا کیا جواب دے ،اُسے لگا جیسے وہ دنیا میں واپس آ گیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے