وزیر اپنے شعبے کی بات کیوں نہیں کرتے؟

”اپوزیشن نے نیب آرڈی ننس میں 35 ترامیم تجویز کیں جو ممکن نہیں“۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ کس وفاقی وزیر کا بیان ہے؟ آپ کا خیال ہے یہ وزیر قانون یا وزیر داخلہ کا بیان ہے تو آپ غلطی پر ہیں ۔ یہ بیان جناب وزیر خارجہ کا ہے جو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دیا گیا ۔ میرا جیسا طالب علم ہتھیلی پر یہ سوال رکھے حیران کھڑا ہے کہ نیب آرڈی ننس اور اس میں ہونے والی ترامیم کا وزیر خارجہ سے کیا تعلق؟ کیا نیب کا تعلق امورخارجہ سے ہے اور نیب آرڈی ننس کو دفتر خارجہ دیکھ رہا ہے؟ کیا اس حکومت کے پاس کوئی وزیر قانون نہیں جو اپنے شعبے پر بیان دے سکے؟ طرز حکومت میں کوئی ترتیب اور حسن انتظام موجود ہے یا ہر وزیر کو اجازت ہے وہ دنیا کے جس موضوع پر جب اور جہاں چاہے خطابت کے دریا بہا دے؟

اتنی بڑی کابینہ کی افادیت کیا ہے اگر متعلقہ موضوع پر بات کرنے کو متعلقہ وزیر ہی دستیاب نہ ہو۔ وعدہ تو یہ تھا کہ مختصر سی کابینہ رکھی جائے گی لیکن یہاں پورا ٹائی ٹینک جناب وزیر اعظم کے ہمراہ ہے۔ منتخب اراکین پارلیمان نظروں میں نہ جچے تو غیر منتخب لوگوں کو شامل کر لیا ۔ غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کا ایک لشکر جرار بھی جناب وزیر ہمراہ کے ساتھ ہے۔

وزیر قانون کی حسن آرائی کا عالم یہ ہے کہ صبح مستعفی ہو جاتے ہیں، سہہ پہر حلف اٹھا لیتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کے ساتھ بیرسٹر ملائکہ بخاری پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف کے طور پر موجود ہیں ۔ بارلیمانی امور کو دیکھنے کے لیے بابر اعوان موجود ہیں ۔ ان کے ساتھ وزیر مملکت کے طور پر علی محمد خان بھی دستیاب ہیں ۔ نیب کے معاملات کو دیکھنے والے بیرسٹر شہزاد اکبر بھی وزیر اعظم کے معاون خصوصی بنائے جا چکے ہیں ۔ وزیر داخلہ بھی ایوان میں موجود اور دستیاب ہیں ۔ معاملہ قانون کا تھا تو وزیر قانون بات کرتے، معاملہ پارلیمانی امور سے جڑا تھا تو پارلیمانی امور کے وزیر اور مشیر نے بات کی ہوتی، وزیر داخلہ ہی بروئے کار آئے ہوتے تو یہ قابل فہم بات ہوتی لیکن نیب، قانون اور ترمیم جیسے قانونی اور پارلیمانی امور سے جناب وزیر خارجہ کا کیا تعلق؟ کوئی ہے جو ہم طالب علموں کی رہنمائی کر سکے؟

کابینہ کا کام کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ ہر شعبہ زندگی کو، ہر وزارت کو ایک وزیر دیکھے اور اس کے معاملات کو اچھے طریقے سے نبٹائے۔ ہمارے ہاں مگر ایک عجیب ہی تماشا لگا ہے۔ سائنس ایند ٹیکنالوجی کے وزیر مذہب سے لے کر امور خارجہ تک ہر معاملے پر اس قوم کی رہنمائی کو بضد ہیں لیکن اپنے شعبے کا کیا عالم ہے یہ نہ ان کی ترجیح ہے نہ ان کے ذوق طبع کا اس سے کوئی واسطہ ہے۔

ہر وزیر یہاں فرض سمجھتا ہے کہ صبح ناشتہ کرنے کے بعد انساف اور قانون پر دو چار اقوام زریں قوم کو سنا کر دفتر جائے۔ چنانچہ نیب کو درکواست کرنا پڑی کہ مہاراجہ اپنے کام سے کام رکھیے احتساب کو دیکھنے کے لیے ہمارا ادارہ موجود ہے آپ بلاوجہ بیانات جاری کر کے معاملات کو پیچیدہ نہ کیا کریں۔ اس تنبیہ کے بعد دو دن سکون سے گزرے اس کے بعد پھر وہی ترک تازی اپنے عروج پر ہے۔

پریس کانفرنس ہو یا ٹاک شو، ہر وزیر دنیا کے ہر موضوع پر بات کرنے کے لیے ہر وقت دستیاب ہے۔ انہیں کسی تیاری، کسی ہوم ورک اور کسی احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک آدھ استثناء کے ساتھ کبھی کسی وزیر نے یہ نہیں کہا کہ اینکر صاحب، یہ سوال میری وزارت سے متعلق نہیں ہے اس لیے میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔ سیاست سے امور خارجہ، امور خارجہ سے معیشت، معیشت سے ثقافت، ثقافت سے مذہب اینکرز اور رپورٹرز جہاں سے چاہے سوال اٹھا لیں ہر وزیر ہر سوال کا جواب دینے کو ہر وقت مستعد ہے۔

کسی کی بلا سے علی گیلانی کو اب کوئی منظور گیلانی لکھ دے۔اولین ترجیح یہ ہے کہ بولنا ہے اور دنیا کی ہر زبان میں بولے چلے جانا ہے، چپ رہنا انہیں کسی زبان میں نہیں آتا۔ چنانچہ غلطی ہائے مضامین کا ایک دیوان مرتب ہوتا جا رہا ہے کہ لوگوں کو گدگدائے ہی چلا جا رہا ہے۔

آپ کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے، وزیر ریلوے امور خارجہ کی گتھیاں سلجھا رہے ہوں گے اور نیب کے امور کی زلفوں کو تراشتے رہیں گے۔ان کی پریس کانفرنسوں کا ریکارڈ مرتب کر کے کوئی دیکھ سکے کہ کتنا وقت ریلوے کو دیا اور کتنا وقت دیگر اہم قومی امور پر قوم کی رہنمائی فرمائی تو حقیقت حال واضح ہو جائے۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے آج تک اپنی وزارت کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی سنجیدہ بریفنگ دی ہو یا بات کی ہو تو بتائیے۔ زیر مواصلات نے قومی اسمبلی میں خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنی ترجیحات میں کبھی اپنی وزارت کو رکھا ہو تو بتائیے۔اپوزیشن کے لتے لینے کے لیے ایک دو آل راؤنڈر قسم کے وزیر کافی ہوتے ہیں۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شعلہ بیانی کسی کو سرخرو نہیں کر سکتی۔ بہت سے لوگ حزب اقتدار سے تحمل، برداشت اور سنجیدگی بھی چاہتے ہیں۔ ہر وقت چھکے لگانا کرکٹ کی دنیا میں بھی پسندیدہ چیز نہیں۔ میچ کبھی اس بات کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ عمران اور میانداد کی طرح ٹھہر ٹھہر کر کچھ اوورز گزارے جائیں۔

اتنے چینلز ہین اور اتنے سارے ٹاک شوز۔ جو مل گیا بلا لو اور جو جی میں آئے پوچھ لو کے بندوبست نے غیر سنجیدگی اور خلط مبحث کو فروغ دیا ہے۔ جانبین میں اتنی سطحیت آ گئی ہے کہ دل ڈرتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہو کسی وزارت کو وزیر کو بلایا جائے اور پھر تفصیل سے اس وزارت کی کارکردگی پر بات ہو۔ پوچھا جائے کہ اگلے دو چار سالوں کے آپ کے اہداف کیا ہیں۔ آپ کی منصوبہ بندی کیا ہے۔ آپ کے مسائل کیا ہیں۔ اسے شعبے سے حزب اختلاف کا آدمی بھی ہو اور ایک سنجیدہ گفتگو ہو کہ حکومت اگلے چند سالوں میں اس شعبے میں کیا کرنا چاہتی ہے اور اپوزیشن کو اس میں کس چیز پر اعتراض ہے۔یہاں روز ایک ایسی کھچڑی پکتی ہے اور کسی کو سمجھ نہین آتی دال کہاں ہے اور چاول کہاں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے