چلاس سانحہ، جوڈیشل کمیشن کا قیام ناگزیر

ضلع دیامر ایک بار پھر لہو لہان ہوگیا، اندھیری رات نے سات افراد کو نگل لیا، ہر طرف سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا تادم تحریر کوئی جواب نہیں ہے، نمل یونیورسٹی کے طالبعلم اظہار اللہ کی معصومیت پر جتنا یقین ہے اتنا ہی انسدادِ دہشتگردی پولیس کی اہلیت پر اعتماد ہے۔ لیکن اندھیری رات نے اژدھے کی مانند نہ کسی کی معصومیت دیکھی اور نہ ہی کسی کی اہلیت دیکھ لی۔ اچانک ایک چھوٹے سے معمول کے کاروائی کے دوران سات میتوں کا اٹھنا اپنے نوعیت کے غیر معمولی واقعات میں سے ایک ہے۔ اس حادثہ کے متعلق ابھی بھی متضاد اطلاعات مل رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔

حکومت نام کی سرے سے کوئی چیز نظر ہی نہیں آئی۔ افسوس کا مقام ہے کہ کرونا وائرس سے لیکر حالیہ دہشتناک واقعہ تک گلگت بلتستان میں زمہ داری اٹھانے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ کئی گھنٹوں تک تو حکومت اس بات کہ وضاحت بھی نہیں کرسکی کہ بنیادی طور پر ماجرہ کیا تھا اور انسدادِ دہشتگردی پولیس چلاس میں کیوں گئی تھی۔ سی ٹی ڈی کا نام سنتے ہی اور خطرناک جوابی کارروائی ہونے کی وجہ سے کم و بیش سبھی کو یہی محسوس ہوا کہ مذکورہ گھر(جس میں اظہار اللہ و دیگر مقیم تھے)سے فائرنگ کی گئی اور پولیس والوں کو مار دیا ہے۔

سوشل میڈیا کے اندھیر نگری میں بھی چاروں اطراف سے دہشتگردی کے فتوے تیزی سے چلتے رہے۔ سوالات اٹھتے رہے کہ پولیس کو مارنے والے کون تھے؟ 2 معصوم افراد کو کس بنیاد پر مار دیا گیا ہے؟ پولیس نے پہلے قتل و غارت کیا یا پھر پولیس نے اپنے دفاع میں 2 معصوموں کی جان لے لی ہے۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اب تک حکومت غفلت کی نیند سے جاگ نہیں سکی ہے، حکومتی سطح پر وہ منظر بھی دل د ہلادینے والا تھا کہ جب سینکڑوں احتجاجی مظاہرین سے مذاکرات کے لئے ضلع کے ایس پی کو بھیج دیا گیا تھا۔

چلاس شہر کے خوبصورت اور قدیم محلہ رونئی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ میں اب تک معصوم اظہار اللہ کی والدہ کا میڈیا کو دیا گیا انٹرویو ہی واحد مصدقہ ڈیٹا ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر جاری ہونے والے اخباری بیانات میں متضاد موقف ہے۔ بی بی سی اور دیگر میڈیا اداروں کو مقتول طالبعلم اظہار اللہ کی والدہ کی جانب جو ویڈیو بیان سامنے آیا ہے اس سے محسوس ہورہا ہے کہ دونوں اطراف پہ تیسرے جانب سے حملہ کردیا گیا ہے۔ اس کی والدہ کے مطابق پولیس سے گھر کی تلاشی لینے اور نہ لینے کے معاملے پر بات چیت ہورہی تھی کہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ اس بات سے صاف واضح ہورہا ہے کہ دونوں فریقین کے بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔

گلگت بلتستان میں انسدادِ دہشتگردی پولیس کا ریکارڈ کراچی پولیس جیسا نہیں ہے اور نہ ہی ساہیوال جیسا ریکارڈ ہے۔ گلگت بلتستان میں اب تک اس طرح کے انکاؤنٹر کی کوئی بڑی مثال نہیں ملتی ہے۔ البتہ میڈیا کے زریعے سامنے آنے والے خبروں کے مطابق سی ٹی ڈی کو اْن کے مخبر سے ملنے والی اطلاع بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔ کیا اب اس پر پولیس صرف روایتی معذرت کے ذریعے معاملہ کو ختم کریں گے؟ پانچ اپنے بندوں اور دو معصوم شہریوں کا حساب کون دے گا؟ اس واقعہ نے انسدادِ دہشتگردی پولیس کے خبر رسانی اور خفیہ اطلاعات کے نظام سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ بظاہر مذکورہ کاروائی معمول کی کارروائی کی طرح ہے لیکن اس کمزور اطلاعاتی نظام میں کسی بھی وقت ایسے حادثے کا خدشہ موجود تھا۔

نگران حکومت نے جس چیز کا حلف لیا ہے اسے شاید چباکر تھوک دیا ہوگا۔ گزشتہ ایک مہینے سے زائد عرصے کے دوران حکومت کی جانب سے کسی بھی معاملے پر میڈیا بریفنگ نہیں رکھی گئی ہے۔ اس اندوہناک واقعہ سے قبل ہی کرونا وائرس جیسے وبا کے لپیٹ میں تھے مگر اس وبا کے دوران بھی حکومتی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ٹھیک ہے کہ نگران حکومت عوام کی طاقت اور مینڈیٹ سے نہیں آئی ہے لیکن اس نے اپنے حلف میں شہریوں کی جان مال اور ملکی مفادات کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ نگران حکومت کے دور میں کرونا کے روزانہ ٹیسٹ کم ہوکر 40 تک آگئے جو فی ضلع چار بنتا ہے۔ اب چلاس کے سانحہ میں اتنی مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے کہ گمان گزرتا ہے جیسے جنگل کا قانون ہے یا عوام چند آفیسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ابھی تک نگران حکومت کی جانب سے کسی بھی متاثرہ کی دلجوئی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ کسی بھی مقتول کے گھر میں فاتحہ کیلئے نہیں گئے ہیں۔ جس روز واقعہ پیش آیا اس روز نگران وزیراعلی میر افضل صاحب کے علاوہ متعدد سرکاری شخصیات اسلام آباد میں تھیں لیکن حادثہ کی خبر سن کر اکثر واپس گلگت روانہ ہوگئے سوائے ہمارے بزرگ کے۔

پولیس کے پانچ جوان فرائض منصبی کے دوران جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن سے ہمدردی ضرور ہے لیکن یہ منطق سمجھ سے ہی بالاتر ہے کہ پولیس آفیسر کے ماتحتی میں تحقیقاتی ٹیم بنائی جارہی ہے۔ اب تک تو پولیس خود بھی اس کیس میں فریق ہے جب تک کپ تحقیقات کوئی کروٹ نہیں لیتے؟ نگران وزیراعلی میر افضل کی جانب سے بلائی گئی کمیٹی آزادانہ تحقیقات نہیں کرسکتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے تاکہ دہشتگردوں کا تعین کیا جاسکے اور زمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔

دیامر کے عوام کے متعلق لوگوں کو اب بھی غلط فہمیاں ہیں۔ دیامر میں شرپسندوں کی موجودگی خارج از امکان نہیں لیکن دیامر میں امن پسندوں کی تعداد اور امن کیلئے قربانیاں دینے والوں کی تعداد کسی بھی دوسرے علاقے سے کم نہیں ہے۔ دیامر کے لوگ جی بی میں آج بھی یہ اعزاز رکھتے ہیں کہ انہوں نے امن کیلئے "اپنوں ” کے خلاف ہی مظاہرہ کیا جو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ باقی مقامات کے "اپنے” عالمی امن ایوارڈ کیلئے منتخب ہونگے۔ میں دیامر یوتھ، علماء اور تمام افراد سے بھی یہ امید رکھوں گا کہ وہ اپنے احتجاج میں ایک یا دو نہیں بلکہ ان کے شہر میں گرے ہوئے سات خون کے احتساب کا مطالبہ کریں گے۔ کیونکہ خون ہر شخص کا ایک ہے، انسانی جان اور زندگی میں کوئی تفریق نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے