لو جی ہو گئی کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل

بھارت شاہ محمود قریشی کی تقریر سے ڈر کر تھر تھر کانپنے لگا۔ کشمیر روڈ کا نام سری نگر بدلنے سے بھارتی ایوانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور نقشہ تبدیل کرنے سے مودی سرکار عمران خان کے پاؤں میں گر کر معافیاں مانگنے لگ گئی کہ جہاں پناہ زرا رحم۔

ایک منٹ کی خاموشی بھی ہوگئی، ہر شہر میں جلوس بھی نکلے، کشمیر روڈ کا نام بھی سری نگر میں بدل دیا اور اب پاکستان کا نقشہ بھی تبدیل کردیا گیا۔
کتنی سہولت سے ہماری حکومت ہاتھ جھاڑ کر کشمیر کے مسئلے سے بری الذمہ ہوگئی۔ دنیا والو اب کر لو جو کرنا ہے، کیونکہ ہم جو سب سے اچھا کرسکتے تھے ہم نے کرلیا ہے۔ اب دنیا جانے اور کشمیر جانے۔ گذشتہ ایک سال میں پاکستان کی صرف کشمیر کے حوالے سے کارکردگی کا جائزہ لیں تو جلسے جلوس، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی چکنی چپڑی تقریریں، کشمیر کمیٹی کے دو سربراہان کی تبدیلی یہ ہے، کل کارکردگی۔

اب زرا دیکھ لیتے ہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر جناب سردار مسعود خان کی کاوشیں تو ان کا وزن پاکستانی حکومت سے بہت زیادہ نظر آتا ہے، جن کی اقوام متحدہ میں سر توڑ کوششوں کے بعد سیکیورٹی کونسل نے کشمیر کے مسئلے پر دو اجلاس بلوائے۔ پاکستانی سفارت کاری میں بھی کشمیر پرکوئی خاص پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی۔ ہمارے وزیر اعظم تو دو سال پہلے تک یہ فرما رہے تھے کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسلتا ہے، ان کے اس بیان کو سامنے رکھیں تو یوں لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت کو بھنک پڑ چکی تھی کہ مودی کی سرکار ایک دفعہ بننے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے، اسی تناظر میں پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کو زہنی طور پر تسلیم کرچکی تھی۔

بھارت نے جس آپشن کو استعمال کرنا تھا، اس نے بڑی سہولت سے استعمال کرلیا، اب پاکستان کے پاس بھارت کو گالیاں دینے، اشتعال انگیز ٹی وی پروگرامز پیش کرنے، جا چھوڑ دے میری وادی اور انڈیا جاجا کشمیر سے نکل جا کے علاؤہ کیا کیا آپشنز موجود ہیں، زرا ان کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ پچھلے دو سال میں موجودہ حکومت کی کشمیر پر سفارت کاری کتنی موثر رہی؟ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ کس طرح لڑا گیا؟ اور کتنے ممالک نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا؟

دنیا کے ہر ملک کا بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی کسی طرح کوئی نہ کوئی اور کچھ نہ کچھ مفاد جڑا ہے، تو کیا کشمیر کے معاملے پر وہ پاکستان کا ساتھ آخری حد تک دیں گے؟ پاکستان کا اس وقت سب سے زیادہ قریب ترین دوست ملک چین جس کی اپنی سرحد کا ایک لمبا حصہ بھارت کے ساتھ جڑا ہے، کے بھی معاشی مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہیں، تو کس طرح وہ پاکستان کی آواز میں آواز ملائے گا؟

اب زرا دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا نقشہ تبدیل کرنے سے دنیا کی صحت پر کیا اثر پڑے گا، کتنا اثر پڑے گا اور کب تک اثر پڑے گا؟ کیا اقوام متحدہ پاکستان کے اس نئے نقشے کو آسانی سے قبول کرلے گا؟ کیا بھارتی لابیاں اس نئے نقشے کے مقابلے پر کچھ نیا سامنے نہیں لائے گی؟

ان تمام سوالات کے جوابات کیا ہیں ، مستقبل میں ان کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کو ستانے کے لئے طعنوں تشنوں کے جو ہتھیار موجود تھے وہ اس نے یوم استحصال منا کر چلا لئے ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے سال کے یوم استحصال کے لئے کیا بچا ہے؟

سکرین کا پردہ تھوڑی دیر کے لئے گرا کر دیکھیں تو آپ کو پردے کے پیچھے بھی یہی واقعات رونما ہوتے نظر آئے ہیں ، جو آج ہوئے ہیں۔ حتی کہ ختم نبوت والوں نے بھی یوم استحصال کی اسلام آباد ڈی چوک ریلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف فائرنگ کی بلکہ تحفظ ختم نبوت کے نعرے بھی لگائے، اب پتہ نہیں کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے ان جلوسوں مٰن ختم نبوت کو کہاں سے خطرہ درپیش ہوگیا تھا؟ پاکستان میں کشمیر کی آزادی کے لئے جن لوگوں نے بڑی بڑی اور لمبی لمبی زندگیاں لگا دی تھیں اب ان کے پاس بڑے بڑے بنگلے اور گاڑیاں بھی ہیں اور ہر سال بیرون ممالک دورے بھی۔ اب انسان پوچھے کہ اتنے سالوں سے کشمیر کے لئے عرق ریزی کا نتیجہ کیا نکلا تو جواب میں معنی خیز مسکراہٹیں ہی ملیں گیَ۔ جیسے کہہ رہے ہوں اب کرلو جو کرنا ہے۔ جنہوں نے جو کرنا تھا انہوں نے وہ کرلیا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے