اچھی خبریں کہاں گئیں

حیران ہوں کہ خبروں کو کیا ہوگیا۔ اچھی خبروں نے نہ آنے کی قسم کھا لی ہے۔ پہلے تو یہ کورونا وائرس دل اور دماغ پر ہتھوڑے برساتا رہا اور تازہ خبر یہ آئی کہ کورونا کے ہاتھوں دنیا میں مرنے والوں کی تعداد سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔اپنے ابھی تک موجود ہونے پر شکر ادا کر ہی رہے تھے کہ لبنان کے شہر بیروت میں قیامت خیز دھماکے نے اسی دل اور دماغ کی چولیں ہلا دیں۔

پرانے وقتوں میں غنیمت تھا کہ اس طرح کی خبریں ہم تک پہنچنے میں دو چار گھنٹے تو لگ ہی جاتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ ابھی بارود میں چنگاری داخل ہوئی ، اُدھر سارا منظر سامنے آنا شروع ہوگیا۔

ایسا ہی منظر نائن الیون کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے بھی دل دہلایا تھا۔اس بیروت کے تازہ دھماکے کے دکھ کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں لیکن جو بات بہت تکلیف دہ ہے وہ اہالیان پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔

لبنان میں خیانت، بد دیانتی او روہ بلا جسے عرف عام میں کرپشن کہتے ہیں اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ ملک اور اس کی رعیت دونوں ہی دیوالیہ ہورہے تھے۔ کاغذ کے نوٹ بے معنی ہورہے تھے اور ملک میں وہ بد عنوانی بے دریغ چلی آرہی تھی جو کرپشن کے ساتھ لگی ہر بے ایمان معاشرے میں آتی ہے۔

لبنان میں ملکی دولت کے ہیر پھیر کا سلسلہ کوئی آج کی بات نہیں، اس ملک پر یہ وبا کافی عرصے سے نازل تھی اور اس کے خلاف خلق خدا آواز بلند کر کر کے تھک گئی تھی۔ اوپر سے شہر بیروت کے بیچوں بیچ حالات سے بے نیاز لوگوں نے دھماکہ خیز مواد کا ذخیرہ رکھ دیا جو کہتے ہیں چھ سال سے رکھا تھا ۔

سنا ہے حالات سے واقف لوگ برسوں سے شور مچا رہے تھے کہ یہ بارود کا پہاڑ کسی روز پھٹ پڑے گا تو قیامت کا سماں ہوگامگر وہی ہوا جو بد دیانت معاشروں میں ہوتا ہے، کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی۔

شاید ذمہ دار لوگ دولت بٹورنے میں لگے ہوں گے۔ اب حالت یہ ہے کہ شہر کا بڑا علاقہ کھنڈر بن گیا ہے جس کے ملبے تلے نہ جانے کتنے لوگ دفن ہوں گے۔لاشوں پر لاشیں نکل رہی ہیں اور تعداد ہے کہ کہیں ٹھہرنے کا نام نہیں لے رہی۔

میں پہلی بار 1949 میں لندن جاتے ہوئے بیروت میں رکا تھا۔ کیا حسین، دلکش اور آنکھوں کو بھلا لگنے والا شہر نظر آیا تھا۔ رونق اور چہل پہل کے معاملے میں بیروت نے پیرس کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور دولت مند شیوخ فرانس کی بجائے لبنان کا رُخ کرنے لگے تھے۔

پھر یہ ہوا کہ لبنان کو کسی کی نظر کھا گئی اور ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی جس نے ملک کے بخیے ادھیڑ دئیے۔کئی سال تک لوگ ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور خوں ریزی کو شغل بنا لیا۔خدا خدا کرکے وہ بلا ٹلی اور حالات معمول پر آنے لگے۔ لیکن ادھر لبنان کو وہ دیمک لگی جسے کرپشن کہتے ہیں ۔ بر سر اقتدار لوگوں نے سرکاری خزانے کی ٹونٹی سے اپنے خالی برتن بھرنے شروع کئے۔ ہم نے عرصے تک لوگوں کو سڑکوں پر نکلتے اور احتجاج کرتے دیکھا ۔

مگر بددیانتی کی لعنت سے ملک کو نجات نہ ملی۔نیّت میں فتور ہو تو بے شمار بد اعمالیاں خود ہی سر ابھارنے لگتی ہیں۔ اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ بیروت شہر کے گوداموںمیں دھماکہ خیز مواد کے انبار لگے تھے اور کسی کو ہوش نہ تھا۔ ہوش ٹھکانے ہوں تو لا پروائی کے واقعات نہ ہوں۔ مگر جو ہوا براہوا۔ بیروت جیسا جیتا جاگتا شہر خاک میں مل گیا۔

دھماکہ اپنے ساتھ اتنی تباہی لایا ہے کہ دنیا کہ کئی ملکوں نے لوگوں کی جانیں بچانے کے ماہرین کی جماعتیں وہاں بھیجنی شروع کردی ہیںکیونکہ پہلے ان کی خاطر جتن کئے جائیں جو ملبے تلے ہیں مگر ابھی زندہ ہیں۔باقی کام اس کے بعد ہوں گے جن کی تکمیل کو ایک عمر درکار ہوگی۔دیکھیں وقت ہمیں اور کیسے کیسے منظر دکھاتا ہے۔

بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ یہ اچھی خبروں کو کیا ہوا کہ انہوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ مگر میں بات یہاں ختم کروں گا کہ خوش گوار خبریں نہ سہی، دل کو خوش کرنے والے چہرے ہی ٹی وی کے پردے پر آجائیں تو بہت ہے۔ برطانیہ کے ٹیلی وژن پر اب اپنی طرف کے ، بھارت، پاکستان او ربنگلہ دیش کے چہرے نظر آنے لگے ہیں۔

بی بی سی ون کے صبح کے حالات حاضرہ کے پروگرام بریک فاسٹ میں خیر سے ڈاکٹر نگہت سلیم آتی ہیں جو معالج ہیں اور کورونا کی وبا پر اپنی رائے اور مشورے دیتی ہیں۔وہ تو خیر ان کے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن ان کی دلکش شخصیت، پھولوں کی طر ح کھلتا ہوا چہرہ اور اس پر غضب کی مسکراہٹ، ساری اکتا دینے والی خبروں کا مزاج ہی بدل دیتی ہے۔

پھر ان کا پہناوا اور سر پر دوپٹہ ڈالنے کا خالص مشرقی انداز اچھالگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہاتھ پیشانی تک لے جاکر سلام کریں گی۔کچھ روز ہوئے عید کا جوڑا پہن کر آئیں تو گھر کی بہو بیٹی لگیں۔ جیتی رہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ اپنی طرف کے لوگ، جو اب رواں انگریزی بولنے لگے ہیں اور انہیں ٹی وی پر آنے کا موقع دیا جاتا ہے، اپنی وضع قطع کا خیال رکھیں اور اپنی شناخت کے اظہار میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ کریں۔ ہم ان کو بھی جینے کی دعا دیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے