دو اسلام

میں اپنے دوستوں کا بے حد احسان مند ہُوں جو اکثر میرے ساتھ واٹس ایپ پر ایسی باتیں بھی شیئر کرتے ہیں، جن سے دماغ میں کئی بند اور کئی نئی کھڑکیاں کُھل جاتی ہیں۔ عزیزی طاہر مسعود قریشی واپڈا سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوگئے ہیں مگر اس واٹس ایپ کی وجہ سے اُن سے رابطہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور باقاعدہ ہوگیا ہے۔

گزشتہ دنوں انھوں نے ایک ایسی تحریر مجھے فارورڈ کی جس میں چند ایسے سوالوں سے بحث کی گئی ہے جن پر ہر دردمند اور روشن فکر آدمی اکثر سوچتا اور پریشان ہوتا رہتا ہے، اس تحریر کا تعلق ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے ہے جو بلاشبہ بیسیوں صدی میں اسلامی فکر کے حوالے سے ایک ایسے مفکر ہوئے ہیں جن کی جس قدر تعظیم کی جائے کم ہے کہ وہ عالمِ اسلام کے ان چند باکمال لوگوں میں سے تھے جنھیں مغربی فکر پر بھی غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ اُن کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ 1949ء میں شائع ہوئی اور اسے ایک عالمی انقلاب کے منظر نامے کے طور پر دیکھا گیا ۔ طاہر مسعود قریشی کی بھیجی ہوئی اس چشم کشا تحریر کا یہ اقتباس دیکھیے۔

’’ڈاکٹر غلام جیلانی اور اُن کا پاکستان کس قدر بالغ تھا آپ یہ جاننے کے لیے ’’دو اسلام‘‘ کا صرف ابتدائیہ ملاحظہ کیجیے ۔میں اس ابتدایئے کو چند جگہوں سے ایڈٹ کر رہا ہوں کیونکہ آج کا مسلمان ڈاکٹر برق کے مسلمانوں سے بہت پیچھے ہے…وہ لکھتے ہیں جب میں نے تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں مسلمانوں کی غربت اور بے کسی کے مقابلے میں ہندوؤں کی ترقی اور خوشحالی دیکھی تو اپنے والد صاحب سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ ہندو تو زندگی کے مزے لُوٹ رہے ہیں اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا ’’یہ دنیا مُردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اﷲ نے یہ مُردار ہندوؤں کے حوالے کردیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے، کہو کون فائدے میں ہے ہم یا وہ؟

میں بولا کہ اگر دنیا واقعی مُردار ہے توپھر آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مالِ تجارت خریدنے کے لیے امرتسر تک کیوں آئے، ایک طرف دنیاوی سازوسامان خرید کرمنافع کمانا اور دوسری طرف اسے مُردار قرار دینا عجیب قسم کی منطق ہے یہ؟

والد صاحب، بیٹا بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے، حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کردی۔ سفر سے واپس آکر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا اس نے بھی وہی جواب دیا۔ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیداہوئی لیکن میرے قلب و نظر پر تقلید کے پہرے بیٹھے تھے، علم کم تھا اور فہم محدود۔ میں مسلسل چودہ برس تک حصولِ علم کے لیے مختلف علما اور صوفیا کے ہاں رہا ، درسِ نظامی کی تکمیل کی سیکڑوں واعظوں کے وعظ سنے، بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام رائج کا ماحاصل یہ ہے۔

’’توحید کا اقرار اور صلوٰۃ ، زکوٰۃ ،صوم اور حج کی بجا آوری، اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا، جمعرات، چہلم ، گیارہوں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا، قرآن کی عبارت پڑھنا، اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا، مرشد کی بیعت کرنا، مرادیں مانگنا، مزاروں پر سجدے کرنا، تعویذوں کو مشکل کشا سمجھنا، کسی بیماری یا مصیبت سے نجات کے لیے مولوی جی کی دعوت کرنا، گناہ بخشوانے کے لیے قوالی سننا، طبیعات ، ریاضیات ، اقتصادیات ،تعمیرات وغیرہ کوکُفر خیال کرنا ،غیر مسلم کو ناپاک اور نجس سمجھنا ، غور وفکر اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا، صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا اور ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت کے بجائے دعاؤں سے کرنا۔‘‘میں علمائے کرام کے فیض سے جب تعلیماتِ اسلامی پر پوری طرح حاوی ہوگیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی ۔’’خدا ہمارا ، رسول ہمارا، فرشتے ہمارے، جنت ہماری، حُوریں ہماری، زمین ہماری،آسمان ہمارا۔‘‘الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے کے لیے آئی ہیں، اُن کی دولت، عیش اور تعلیم چند روز ہیں، وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حُوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔‘‘

زمانہ گزرتا گیا، انگریزی پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا ،قلب و نظرمیں وسعت پیدا ہوئی، اقوام و ملکوں کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا۔

’’مسلمانوں کی 128سلطنتیں مٹ چکی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافتِ عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا؟ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پر فرونیاں کو کیوں بٹھایا؟ مغلیہ سلطنت کا تاج الزبتھ کے سرپر کیوں رکھ دیا؟ بلغاریہ، ہنگری ، رومانیہ، سرویا، پولینڈ،کریمبیا، یوکرائن، یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دیے؟ ہمیں فرانس سے بیک بینی ودوگوش کیوں نکالا اور تیونس، مراکو، الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟

میں رفع حیرت کے لیے مختلف علما کے پاس گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ ایک دن سحر کو بیدار ہوا طاق میں قرآن شریف رکھا تھا ،کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی (ترجمہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے ہم اس سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کرچکے ہیں، ہم نے انھیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیںہوئی، ہم اُن کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور اُن کے باغات میں شفاف پانی کی لہریں بہتی تھیں لیکن اب انھوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں توہم نے انھیں تباہ کردیا اور اُن کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا۔‘‘

میری آنکھیں کُھل گئیں، اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں اور اللہ کی سنتِ جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا،’’یہ دنیا دارالعمل ہے، یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں، ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا‘‘ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ ‘‘

میں سارا قرآن مجید پڑھ گیا اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا عَلم ہاتھ میں لیے معانی حیات کی طرف بااندازِ طوفان بڑھ رہے تھے اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمال ِ جاں افروز پر رہ رہ کر قربان ہورہے تھے ۔ قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہوگیا، مسلمان ہر جگہ محض اس لیے ذلیل ہورہا ہے کہ اُس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کرکے رکھا ہوا ہے ۔اُس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویز ہیں اور بس ۔اور ساتھ ہی یقین ہوگیا کہ اسلام دو ہیں۔ ’’ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ اَسّی لاکھ ملا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر کر رہے ہیں‘‘۔

یہ تحریر ستمبر 1949 کی یعنی آج سے تقریباً 71برس پہلے کی ہے۔ کیا یہ حقیقت افسوس ناک نہیں کہ آج بھی ہم میں سے بیشتر اُس پہلے والے اسلام کے پیروکار ہیں جس کا ذکر ڈاکٹر برق نے بڑی وضاحت سے کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے