عثمان بزدار سے ایک ملاقات

عثمان بزدار 18 اگست کو اسلام آباد تھے‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال پورے ہو چکے تھے‘ میں بزدار صاحب کی دعوت پر پنجاب ہاؤس گیا اور مجھے تنہائی میں ان کے ساتھ ایک گھنٹہ گزارنے کا موقع ملا‘ یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی اور یہ مجھے توقع سے بھی زیادہ سادہ اور معصوم لگے‘ یہ شراب کے لائسنس کے ایشو پر نیب کو تازہ تازہ جواب پہنچا کر آئے تھے لیکن یہ اس کے باوجود مطمئن تھے اور ان کا کہنا تھا ’’میرے والد کہتے تھے تمہیں وزیراعلیٰ اللہ نے بنایا ہے‘ جب تک یہ چاہے گا تم وزیراعلیٰ رہو گے‘ اس لیے کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں لہٰذا میں پریشان نہیں ہوں اگر اللہ نہیں چاہے گا تو نیب کیا دنیا کی کوئی طاقت میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی‘‘۔

میں نے ان سے پوچھا ’’آپ نے شراب کا لائسنس کیوں دیا تھا‘‘ ان کا جواب تھا ’’لائسنس میں نے نہیں دیا تھا‘ ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل نے دیا‘ میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ بوگے شاہ اور اس کی فیملی کو جانتے ہیں‘‘ ان کا جواب تھا ’’بالکل نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’اور گوربچن سنگھ کون ہے‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں اسے بھی نہیں جانتا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر اسے شراب کا لائسنس کیسے مل گیا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’آپ اکرم اشرف سے پوچھیں گوربچن کون ہے اوراسے یونی کارن کے ساتھ لائسنس کیوں جاری کیا گیا‘‘ میں نے کہا ’’اکرم اشرف کا موقف ہے مجھے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر راحیل صدیقی نے چیف منسٹر کی طرف سے آرڈر دیا تھا۔

یہ مجھے چیف منسٹر آفس میں بلا کر کہتے رہے‘‘ان کا جواب تھا ’’یہ غلط ہے‘ راحیل صدیقی اور اکرم اشرف دونوں ریٹائر ہو چکے ہیں اگر اکرم اشرف اتنا ہی بہادر تھا تو وہ انکار کر دیتا یا پھر نوکری میں رہ کر کلمہ حق کہتا مجھے پرنسپل سیکریٹری مجبور کر رہا ہے‘ یہ کیا بہادری ہوئی آپ نے اپنی ریٹائرمنٹ اورراحیل صدیقی کی ریٹائرمنٹ کے بعد الزام لگا دیا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن یہ مہربانی صرف یونی کارن پریسٹیج پر کیوں؟‘‘ بزدار صاحب کا جواب تھا ’’گورنر خالد مقبول کے دور میں ہالی ڈے اِن ملتان اور پی سی بھوربن کو بھی لائسنس جاری کیے گئے تھے اور ان کے لیے بھی یہی پروسیجر فالو کیا گیا تھا‘‘ میں نے کہا ’’ لیکن نیب آپ پر کرپشن کا الزام لگا رہا ہے‘‘ یہ ہنس کربولے ’’نیب ابھی پتا نہیں کیا کیا کھولے گا۔

یہ میرے کپڑے تک گنے گا مگر میں پریشان نہیں ہوں کیوں کہ میں ٹرائبل سوسائٹی سے آیا ہوں اور قبائلی لوگوں کے اعصاب کیس بھگت بھگت کر مضبوط ہو چکے ہوتے ہیں‘ دوسرامیں جب تحصیل ناظم تھا تو اس وقت بھی نیب اور اینٹی کرپشن نے میرے خلاف تحقیقات کی تھیں‘ میں نے اس بار بھی ان کا مقابلہ کیا تھا چناں چہ یہ اس مرتبہ بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے‘ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا‘ میرے ہاتھ صاف ہیں‘ اگر لائسنس غلط جاری ہوا تو اس کا ذمے دار ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف ہے اور میں یہ ثابت کروں گا‘‘۔

میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ نے کبھی سوچا تھا آپ بارہ کروڑ لوگوں کے صوبے کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے‘‘ عثمان بزدار نے سچے دل سے اعتراف کیا ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر آپ کیسے بن گئے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میرے دوست مجھے 2018 کا خوش قسمت ترین شخص کہتے ہیں‘‘ پھر سیریس ہوئے اور کہا ’’مجھے علاقے کے لوگوں کی دعائیں ہیں‘ میں نے پوری زندگی غریبوں کی خدمت کی‘ میں عام لوگوں کے ساتھ بیٹھتا تھا‘ ان کے ساتھ زمین پر لیٹ جاتا تھا‘ یہ مجھے پیارکرتے تھے اور یہ مجھے اپنا وزیراعلیٰ کہتے تھے‘آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میں ایم پی اے بننے کے بعد لاہور جا رہا تھا اور سیلاب کی وجہ سے راستہ بند ہو گیا۔

میں کچی بستی کے لوگوں کے ساتھ ننگی زمین پر سو گیا‘ میرے سرہانے مٹی کے ڈھیلے تھے‘ شاید اللہ کو میری یہ سادگی پسند آ گئی یا کسی کی دعا قبول ہو گئی اور میں اس منصب تک پہنچ گیا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’ویسے اسے عام زبان میں لاٹری کہتے ہیں‘‘ یہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ عمران خان کو جانتے تھے‘‘ یہ بولے ’’میری ایم پی اے بننے یا وزیراعلیٰ نامزد ہونے تک خان صاحب سے کوئی ملاقات نہیں تھی‘ مجھے میرے ایک دوست نے کہا‘ میں تمہیں لینے آیا ہوں‘ ہم نے بنی گالا جانا ہے‘ میں اس کے ساتھ آگیا‘‘ میں نے انھیں روک کر کہا ’’اور آپ کے اس دوست کا نام جمیل گجر تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں یہ بھی تھے اور بھی تھے۔

وہاں میری خان صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی‘ جہانگیر ترین سے دوسری ملاقات تھی لیکن انھوں نے مجھے پہچانا تک نہیں‘ میں پارٹی کے کسی بھی شخص کو نہیں جانتا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ پر اعتراض کیا جاتا ہے آپ کو کوئی انتظامی تجربہ نہیں لیکن 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ اٹھا کر آپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ بات درست ہے‘ میں زندگی میں پہلی بار ایم پی اے بنا اور اس کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ بن گیا‘ میں نے پہلے دن اپنے اسٹاف کو کہہ دیا تھا مجھے انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں‘ آپ بس یہ سمجھیں ایک شخص ڈی جی خان سے سیدھا لاہور آ گیا اور اسے راستے کے کسی شہر‘ کسی سڑک کا پتا نہیں لہٰذا میری آپ سے بس یہ درخواست ہے آپ صرف اور صرف قانون کے مطابق چلیں۔

میرا حکم بھی اگر غیرقانونی ہے تو اسے ماننے سے انکار کر دیں‘‘ وہ رک کر بولے ’’میں جانتا ہوں میں صرف ایمان داری اور قانون پسندی سے ہی سروائیو کر سکتا ہوں لہٰذا میں مضبوطی سے اس راستے پر کھڑا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن آپ پر کرپشن کے بے شمار الزامات لگ رہے ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ نے خود کہہ دیا الزامات‘ یہ صرف الزامات ہیں‘ ان میں حقیقت ہے تو کوئی ثابت کر دے‘ میں گھر چلا جاؤں گا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ تاریخ میں سب سے زیادہ ہیلی کاپٹر استعمال کرنے والے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔

آپ نے وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان سے سو گنا زیادہ ہیلی کاپٹر استعمال کیا‘ آپ یہ ریکارڈ کیوں بنانا چاہتے ہیں‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’میں وزیراعلیٰ ہوں‘ پنجاب کے مختلف شہروں اور ضلعوں میں جانا میری ذمے داری ہے‘ میں یہ ذمے داری نبھا رہا ہوں‘ میں اگر باہر نہیں نکلوں گا تو پھر مجھ پر الزام لگے گا میں لاہور سے باہر نہیں نکلتا اور میں اگر صوبے کے تمام ضلعوں میں جا رہا ہوںتو مجھ پر الزام لگ رہا ہے میں نے ہیلی کاپٹر کو رکشہ بنا دیا ہے‘ آپ خود بتائیں میں پھر کیا کروں؟ کیا صرف لاہور تک محدود ہو جاؤں؟ تاہم میں دعویٰ کرتا ہوں میں نے آج تک کسی افسر یا وزیرکو ہیلی کاپٹر نہیں دیا۔

میں اس کے اندر بیٹھا ہوں تو ہی یہ اڑتا ہے جب کہ باقی وزراء اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر بے شمار افسر اور لوگ استعمال کرتے رہتے ہیں‘‘ وہ تھوڑا سا رک کر بولے ’’میری کوئی سوشل لائف نہیں‘ میں آج تک کسی پرائیویٹ پارٹی یا محفل میں نہیں گیا‘ میں کسی وزیر کے گھر نہیں گیا‘ میں صرف کام کرتا ہوں اور بس‘ میں جب سی ایم بنا تو میرے دفتر میں فائلوں کا انبار ہوتا تھا‘ میں نے سیکریٹریوں کو بلا کر کہہ دیا وزارتوں کے کام آپ کی ذمے داری ہیں‘ یہ آپ کریں گے‘ میرے پاس کوئی فائل نہیں آنی چاہیے‘ میرے پاس صرف فیصلے آئیں گے چناں چہ فائلیں آنا بند ہو گئیں لیکن کام اس کے باوجود بہت زیادہ ہے چناں چہ میرے پاس وزراء کے گھر اور پرائیوٹ فنکشنز میں جانے کا وقت نہیں بچتا‘‘۔

عثمان بزدار کے ساتھ ملاقات میں چند دل چسپ باتیں بھی ہوئیں‘ مثلاً بزدار صاحب نے بتایا’’ میں نے زندگی میں کبھی کوکا کولا اور سیون اپ نہیں پی‘ میں فانٹا بھی نہیں پی سکتا‘ میں صرف شیزان پیتا ہوں‘ میں اسمارٹ فون استعمال نہیں کر سکتا‘ میرے پاس عام سا فون ہے‘ میں اس پر بھی صرف فون کرتا یا سنتا ہوں‘ زیادہ سے زیادہ واٹس ایپ کر لیتا ہوں‘ میں فون کو زیادہ نہیں چھیڑتا کیوں کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہیں غلطی سے میرا ہاتھ دائیں بائیں نہ لگ جائے اور کوئی ایسی چیز نہ کھل جائے جسے میں بند ہی نہ کر سکوں‘ میں نے کبھی آئی فون یا اینڈرائیڈ استعمال نہیں کیا‘ میں انھیں ہاتھ بھی نہیں لگاتا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’مجھے یہ بھی نہیں پتا میرے بچے کس کلاس میں پڑھتے ہیں۔

میں نے چند دن پہلے ان کے فارم پر کرنا تھے‘ میں نے ان سے کہہ دیا بیٹا مجھے نہیں پتا تم کس کس کلاس میں پڑھتے ہو لہٰذا تم اپنے فارم خود پر کر لو‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میں اللہ سے ڈر کر رہتا ہوں‘ غریبوں کی دعا لیتا ہوں‘ روز صبح شکرانے کے دو نفل پڑھ کر دفتر آتا ہوں‘ اللہ سائیں سے معافی بھی مانگتا رہتا ہوں‘ مجھے گردنوں میں سریے والے لوگ اچھے نہیں لگتے‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’لیکن آپ کی پارٹی میں بے شمارایسے لوگ ہیں‘ ان کے سریے ان کے سروں سے بھی باہر نکل گئے ہیں‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ ٹھیک نہیں‘ انسان کی کیا اوقات ہے‘ یہ معمولی سے بخار کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔

انسان کو اللہ سے ڈر کر رہنا چاہیے‘‘ میں نے آخر میں پوچھا ’’کیا آپ میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کریں گے‘‘ وہ بولے ’’پنجاب کابینہ توسیع سے انکار کر چکی ہے‘ میاں نواز شریف کو پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی توسیع نہیں ملے گی‘ ہم لاہور ہائی کورٹ کو مطلع بھی کر چکے ہیں‘اب میاں صاحب جانیں اور عدالت جانے‘ ہماری طرف سے انھیں اب واپس ہی آنا پڑے گا‘‘۔

میں نے اجازت چاہی‘ وہ کھڑے ہوئے‘ تھوڑا سا سوچا اور شرما کر بولے ’’میں آپ کو سجی کی دعوت بھی دینا چاہتا ہوں اور ڈی جی خان بھی لے جانا چاہتا ہوں‘ کیا آپ میرے ساتھ جائیں گے‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھا‘ تھوڑا سا جھکا اور عرض کیا ’’اگر اللہ نے چاہا توضرور‘‘ اور یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے