مسلم لیگ (نون) اور پیپلزپارٹی کا اپنے گناہوں کا کفارہ

شیکسپیئر کا شہرئہ آفاق کردار ہملٹ ایک انتہائی ڈرامائی مقام پر جھلاہٹ میں سوال اٹھاتا ہے:”Where is thy Blush”سادہ لفظوں میں وہ یہ جاننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ چہرے پر شرمندگی کے باعث نمایاں ہوئی سرخی کہاں گئی۔ ایسی ہی سرخی میں بدھ کی شام مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے معزز اراکین سینٹ کے چہروں پر تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔مجھے ہرگز نظر نہیں آئی۔ شاید دور کی نظر مزید خراب ہوگئی ہے۔عینک کے شیشے بدلوانے کی ضرورت ہے۔

ہماری دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے معزز اراکین کے چہروں پر مذکورہ سرخی کا ڈاکٹر وسیم شہزاد کی تقریر کے دوران نمایاں ہونا لازمی تھا۔ اپوزیشن ہی کے ایک قد آور رہ نما جناب خواجہ آصف نے کئی برس قبل جھلاکر اعلان کیا تھا کہ ’’کچھ شرم ہوتی ہے۔کچھ حیا ہوتی ہے‘‘۔ کاش ان کے سینٹ میں بیٹھے ساتھی ان کے اس فقرے کا مان رکھ لیتے۔

ہوا یہ تھا کہ تھوڑی لیت ولعل کے بعد مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی بھرپور معاونت سے بدھ کی شام ایوانِ بالا سے بھی بالآخر وہ قوانین منظور ہوگئے جو عمران حکومت نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف )کی گرے لسٹ سے نکالنے کی خاطر تیار کئے تھے۔ قومی اسمبلی سے یہ قوانین پہلے ہی منظور ہوچکے تھے۔ان کی منظوری کے لئے ایوانِ زیریں میں عمران حکومت کو اپوزیشن کے ووٹ درکار نہیں تھے۔وہ اپنے تئیں کمزور ہی سہی مگر سادہ اکثریت کی حامل ہے۔ مذکورہ قوانین کی منظوری میں تاہم رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کے سرکاری گھر میں وزیرقانون جناب فروغ نسیم سے رات گئے تک مذاکرات کئے۔

ان مذاکرات کے طفیل مذکورہ قوانین کو عجلت میں پاس کرنے کافیصلہ ہوا۔ان قوانین کو قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل فروغ نسیم صاحب نے محبت بھری تقریر بھی فرمائی۔کمال فراخدلی سے اپوزیشن کے چند رہ نمائوں کے نام لے کر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔وفور جذبات سے مغلوب ہوکر یہ اعلان کرنے کو بھی مجبور ہوگئے کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے عمران حکومت سے تمام تر اختلافات کے باوجود FATFکے اطمینان کے لئے بنائے قوانین کی تیاری اور منظوری میں ’’مثبت کردار‘‘ادا کیا۔ اپنی حب الوطنی ثابت کردی۔

وزیر قانون سے حب الوطنی کی سند حاصل کرنے کے بعد ان دو جماعتوں کے معزز اراکینِ سینٹ کے لئے لازمی تھا کہ وہ ایوان بالا سے بھی مذکورہ قوانین کی منظوری میں پس وپیش سے کام نہ لیتے۔ نجانے مگر کیوں ان کے چند اراکین تھوڑی مزاحمت دکھانے کو ’’ڈٹ‘‘ گئے۔وہ ڈٹے رہتے تو اپنی بے پناہ اکثریت کے بل بوتے پر اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی سے منظور ہوئے ایف اے ٹی ایف کی تسلی کے لئے بنائے قوانین کونا منظور بھی کرسکتی تھیں۔یوں ایک ’’بحران‘‘ کھڑا ہوجاتا۔ پاکستان کو عالمی تناظر میں شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ تین روز تک جاری رہے مذاکرات کے بعد مگر ’’درمیانی راہ‘‘ نکل آئی۔ہمارے ہاں اس عمل کو ’’مک مکا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔فقط دو قوانین میں اپوزیشن نے چند ترامیم متعاف کروائیں۔ بقیہ چھ قوانین ہو بہو منظور ہوگئے۔یوں ایک ممکنہ ’’بحران‘‘ ٹل گیا۔

سلیم ملک کے الزامات پر راشد لطیف کاشاعرانہ انداز میں ردعمل یہ ’’بحران‘‘ ٹل گیا تو جمعیت العلمائے اسلام کے سینیٹر عطاء الرحمن تلملااُٹھے۔ طنز کے نشتروں سے لدی تقریر کے ذریعے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے اراکین سینٹ سے مسلسل پوچھتے رہے کہ وہ کونسی ’’مجبوری‘‘ تھی جس نے ان دو جماعتوں کو عمران حکومت کی ’’سہولت کاری‘‘ کی جانب دھکیلا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی ایسے ہی سوالات اٹھائے۔اپوزیشن والے سرجھکائے ان کے طعنے برداشت کرتے رہے۔

اس مقام پر عمران حکومت کے نمائندوں کے لئے لازمی تھا کہ فروغ نسیم کی طرح سینٹ میں کھڑے ہوکر مسلم لیگ (نون) اورپیپلز پارٹی کی جانب سے دکھائی ’’ذمہ داری اور حب الوطنی‘‘ کو سراہتے۔ قائد ایوان کی حیثیت میں لیکن ڈاکٹر وسیم شہزاد نے انہیں مزید شرمندہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دھواں دھار تقریر فرمائی۔ اس تقریر کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے ایف اے ٹی ایف کو اطمینان دلاتے قوانین کی تیاری اور منظوری میں متحرک کردار ادا کرتے ہوئے درحقیقت اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کیا ہے۔

میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کئی برسوں سے اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے عالمی اداروں کو ہم سے گلہ یہ رہا کہ ہماری سرزمین پر چند ’’دہشت گرد‘‘ تنظیمیں کام کررہی ہیں۔وہ ’’چندے‘‘ کے نام پر پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے بھاری بھر کم رقوم جمع کرتی ہیں۔یہ رقوم ’’دہشت گردی‘‘ کے لئے آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔تقاضہ ہوا کہ ہم اپنے ہاں ایسے قوانین متعارف کروائیں جو ہنڈی حوالہ کے نام پر ہوئی ’’منی لانڈرنگ‘‘ کو ناممکن بنائیں۔سونے اور جائیداد کی خریداری پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ بینکوں میں جمع ہوئی رقوم کی Sourceواضح انداز میں بتائی جائیں۔

مذکورہ قوانین کی منظوری کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈال دیا گیا۔ دھمکی یہ بھی آئی کہ مزید انتظار نہیں ہوگا۔پاکستان بالآخر ’’بلیک لسٹ‘‘ میں بھی جاسکتا ہے۔ابھی تک ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک اس لسٹ میں موجود ہیں۔اسی باعث ان دونوں ممالک کو دیگر ممالک سے کاروباری تعلقات استوار کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرناہوتا ہے۔

ڈاکٹر وسیم شہزاد صاحب نے مگر بدھ کی شام کھل کر بیان کردیا کہ پاکستان ’’دہشت گردی‘‘ کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اصل وجہ آصف علی زرداری اورشریف خاندان کے ’’کرتوت‘‘ تھے۔ حکومتوں میں ان دونوں نے اپنے اختیار کو عوام کی خدمت کے بجائے ذاتی دولت کے انبار جمع کرنے کے لئے استعمال کیا۔ رشوت سے کمائی دولت سے لندن میں سرے محل اور ایون فیلڈ کے فلیٹ خریدے۔ ملک میں موجود اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے ’’فالودہ بیچنے والوں‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے ٹی ٹی کے ذریعے حاصل کرتے رہے۔ان کے جعلی اکائونٹ اب بے نقاب ہوگئے ہیں۔ایف آئی اے نے ان کی وجہ سے سنگین مقدمات بھی بنائے ہیں۔ پاکستان درحقیقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی نگاہ میں زرداری اور شریف خاندان کی غیر ملکوں میں خریدی قیمتی جائیدادوں کی وجہ سے آچکا تھا۔ان ہی کی وجہ سے ہمیں ’’گرے لسٹ‘‘ میں جانا پڑا۔ اس لسٹ سے نکلنے کو فقط موجودہ حکومت ہی یقینی بناسکتی تھی۔

عمران خان صاحب اس حکومت کے سربراہ ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ انہیں صادق اور امین ٹھہراچکی ہے۔ان کی دیانت پر سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا۔ان کی کسی غیر ملک میں کوئی جائیداد نہیں۔ وہ جب منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو دنیا ان کا اعتبار کرتی ہے۔مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں گیا۔عمران حکومت کے دور میں اب وہاں سے باہر نکل آئے گا۔

ڈاکٹر وسیم شہزاد کی تقریر سے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے اراکین ہکا بکا ہوئے بیٹھے رہے۔ چند ایک نے فقرے بازی کے ذریعے ان کی تقریر کو روکنا بھی چاہا۔ بات مگر بنی نہیں۔وسیم شہزاد یہ تاثر قائم کرنے میں کاملاََ کامیاب رہے کہ زرداری اور شریف خاندان کی جانب سے ہوئی منی لانڈرنگ۔ان سے منسوب جعلی اکائونٹس، ان اکائونٹس میں آئی بھاری بھر کم رقوم اور غیرملکوں میں خریدی جائیدادیں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں دھکیلنے کا اصل سبب تھیں۔’’دہشت گردی‘‘ کا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

ڈاکٹر صاحب سے قبل جناب مخدوم شاہ محمود قریشی بھی قومی اسمبلی میںہوئی ایک دھواں دھار تقریر کے ذریعے قوم کو آگاہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے لازمی تصور ہوتے قوانین کی منظور ی میں تعاون کے بدلے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی والے نیب قوانین میں نرمی لانے کا تقاضہ کررہے تھے۔ کپتان مگر ڈٹ گیا۔ اپوزیشن کو NROدینے کے لئے ہرگز آمادہ نہیں ہوا۔ بالآخر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی ’’اسی تنخواہ‘‘ پر حکومت کی معاونت کو تیار ہوگئی۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد کی بدولت اب یہ بات بھی سمجھ میں آئی ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اپنی معاونت کے ذریعے عمران حکومت پر کوئی احسان نہیں کیا۔ فقط اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے