’’ہماری‘‘ خونی تحریکیں

زوال زلزلہ کی طرح ’’بی ہیو‘‘ کرتا ہے۔ نہ کچے مکانوں اور نہ جھونپڑیوں کو معاف کرتا ہے نہ محلوں ماڑیوں کو بخشتا ہے۔ نہ عبادت گاہیں چھوڑتا ہے نہ رقص گاہوں کو،نہ بچوں پہ رحم کھاتا ہے نہ اسے بوڑھوں پر ترس آتا ہے۔معاشرہ بھی زوال کی زد میں آ جائے تو سب کچھ لپیٹ کے رکھ دیتا ہے۔

ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اور مسلسل ہوتا ہی چلا جا رہا ہے، ہم سب کے سامنے ہے کہ زوال کی ’’سنوبالنگ‘‘ عروج پر جا رہی ہے ۔معاشرہ کا اک اک مسام ناسور میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر شعبہ میں ایسی ایسی تخریب کاری دکھائی دیتی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے اور بندہ حیران ہو کر سوچتا ہے کہ تخریب کا یہ شہکار کسی کو سوجھ بھی کیسے سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ’’تخریب ‘‘ میں ’’تخلیق‘‘ نت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔

مدتوں سے یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ ہمارے ہاں ’’کباب کلچر‘‘’’کتاب کلچر‘‘ کو کھا چکا ہے ۔جو لاہور، بالخصوص مال روڈ سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ آج سے 50-45سال پہلے اس تاریخی اساطیری شاہراہ پر کتابوں کی کتنی دکانیں تھیں اور آج کتنی ہیں اور جو بچ گئی ہیں ان پر بھی نزع کا عالم طاری ہے اور وہ بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رہی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آبادی میں اضافہ پر کتب فروشی و کتب بینی میں اضافہ ہوتا لیکن یہاں بھی نان سٹاپ ریورس کا عالم ہے اور بے حسی کی انتہا یہ کہ اس پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں یعنی وہی بات کہ حادثہ یہ نہیں کہ حادثہ ہو گیا، اصل حادثہ تو یہ ہے کہ حادثہ دیکھ کر کسی نے رکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

کتاب کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ’’ٹیکنالوجی فیکٹر‘‘ بھی یقیناً مرے سامنے ہے لیکن اس ’’آسیب‘‘کا سامنا تو یورپ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کو بھی ہے جہاں کی کم آبادیوں میں کتابیں آج بھی ملینز کی تعداد میں شائع ہوتی اور ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں تو اصل بات وہی ہے کہ زوال او زلزلہ اندھا ہوتا ہے جو اقتصادیات سے لیکر اخلاقیات اور روحانیات سے لیکر کتابیات تک ہرشے کو ’’کھنڈر‘‘ اور ’’پنجر‘‘ میں تبدیل کر دیتا ہے، ہر شے اور شعبہ کو مسخ کر دیتا ہے ۔

قارئین !معاف کیجئے تمہید کچھ لمبی ہو گئی حالانکہ ذکر میں نے اک کتاب کا کرنا تھا جس کا عنوان ہے ’’خونی تحریکیں‘‘ مصنف کا نام ہے اسلم راہی، اس کتاب کا موضوع عالم اسلام میں اٹھنے والی وہ خونی تحریکیں ہیںجنہوں نے مسلمانوں کو شدید نقصانات سے دوچار کیا اور اگر ان میں سے کسی کا کوئی ’’مقصد‘‘ تھا بھی تو اپنے ہی خون میں غرق ہو کر ہمیں کمزور تر کر گیا۔

افادیت نہ ہونے کے برابر لیکن نقصانات ناقابل یقین کہ ان خونی تحریکوں نے مسلمانوں کے اندر تقسیم اور تعصبات کو مزید تیز اور گہرا کیا، اتفاق اتحاد اور یکجہتی کو کاری ضربیں لگائیں ۔ان ’’خونی تحریکوں‘‘کی اذیت، ہزیمت اپنی جگہ لیکن کتاب کے اولین صفحات دیکھ کر پہلا جھٹکا تو مجھے یہ لگا کہ تقریباً 10سال پہلے شائع ہونے والی اس کتاب کو شاید دوسرا ایڈیشن ہی نصیب نہیں ہوا ورنہ اتنے برسوں بعد ’’بار اول‘‘ ہی میرا منہ نہ چڑا رہا ہوتا۔میری ایک عجیب سی پریکٹس ہے کہ میں خود تو خال خال ہی باہر نکلتا ہوں۔میرا ایک انتہائی قابل، چہیتا اور بیبا جونیئر ہے سلیم شہاب جو خود بھی کتابوں کا نشئی ہے۔

اس کے ذمہ یہ کام ہے کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ بعد کتابوں کی دکانیں کھنگالتا ہے اور فون پر مشاورت کے بعد دس پندرہ کتابیں خرید لاتا ہے۔گزشتہ وزٹ میں جب اس نے اس کتاب ’’خونی تحریکیں‘‘ کا نام لیا اور ایک سطری تعارف کرایا تو میں نے کہا ’’فوراً خریدلو‘‘ خیال میرا یہ تھا کہ ریکارڈ توڑ اشاعت ہو گی کیونکہ کوئی پڑھا لکھا مسلمان قاری اس کا عنوان دیکھ کر خریدے بغیر رہ ہی نہیں سکتا لیکن کتاب ملنے پر جو دیکھا۔

عرض کر چکا ہوں جو خود اپنے آپ سے ہماری مجرمانہ لاتعلقی اور بے حسی کی انتہا ہے کہ ’’ماضی‘‘ صرف ماتم کرنے یا جشن منانے کیلئے ہی نہیں ہوتا، سبق بلکہ اسباق سیکھنے کے کام بھی آتا ہے جیسے پرانے سیانے کہا کرتے تھے کہ جانور بھی ذہین ہو تو جس رستے پر اسے پتھر لگے وہ رستہ ہی چھوڑ دیتا ہے اور کبھی مجبوراً وہاں سےگزرنا بھی پڑے تو بے حد چوکس اور چوکنا ہو کر گزرتا ہے۔

بددعائے ہوئے ہیں وہ لوگ جو ایک ہی قسم کے تجربے دہرانے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ اس بار نتیجہ مختلف ہو گا۔کتاب میں مندرجہ ذیل چودہ خونی تحریکوں کا ذکر ہے ۔فدائی تحریک، تحریک روشنائیاں، بہائی تحریک، بابی تحریک، قرامطہ تحریک، بابائی تحریک، تحریک مقنع، ذکری تحریک، ثقفی تحریک، خرمی تحریک، ہاشمی تحریک، علوی تحریک، خارجی تحریک اور صفوی تحریک۔ چند تحریکوں کا ذکر شاید مصلحتاً چھوڑ دیا گیا۔

لیکن ہر تحریک ’’طلسم ہوشربا‘‘ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے کرداروں کو آج بھی مختلف قسم کے ’’میک اپ‘‘ میں دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے اور کمال یہ کہ ’’جذباتی استحصال‘‘ کے سنٹرل آئیڈیاز بھی کم وبیش وہی ہیں۔کوشش کروں گا کہ وقفہ وقفہ سے ان خونی تحریکوں سے آپ کو مختصر مختصر متعارف کراتا رہوں کہ شاید ’’معاملات معرفت‘‘ کو سمجھنے کیلئے ان سے کچھ رہنمائی مل سکے۔’’اسے راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘لیکن بدنصیب مسافروں کو سارے سفر میں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ہر قدم انہیں منزل سے مزید دور لے جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے